Topics

سیرتِ طَیّبہؐ پر اَیوانِ اِقبال میں خطاب

ربیع الاوّل کے مبارک مہینہ میں بمقام ایوانِ اقبال لاہور میں مراقبہ ہال لاہور کے زیرِ اہتمام حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ پر مورخہ ۱۱ مارچ ۲۰۰۶ء کو ایک شاندار اجتماعی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ سیرت طیبہ کے اس پروگرام میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیز کے پروفیسر صاحبان اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے خصوصی طور پر شرکت فرمائی۔ تقریب میں مہمانانِ گرامی کی تعداد تقریباًہزار افراد سے زائد تھی جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب نگران مراقبہ ہال لاہور نے اپنے ابتدائیہ کلمات میں مرشدِ کریم کی خدمات پر مختصر سا تعارف پیش کیا اور آنے والے تمام معزز مہمانانِ گرامی کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا۔ پروگرام کے اختتام پر مہمانانِ گرامی حضرات کی تواضع کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ پروگرام مرشدِ کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

مرشدِ کریم نے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا:

یہ جو مجلس منعقد کی گئی ہے، اس کے پیچھے سلسلۂِ عظیمیہ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات، طرزِ فکر اور اخلاقِ حسنہ کا ذکر کیا جائے۔

انبیاء علیہم الصّلوٰۃ و السّلام نے:

نوعِ انسانی کو توحید کا سبق دیا ہے….

اچھائی و برائی کے تصور کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی ہدایت فرمائی….

برے کام کرنے سے منع فرمایا….

یہ کام اللہ کے انبیاءؑ اور رسولوں کے ذریعہ حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک جاری رہا۔

اب نبوت ختم ہوچکی ہے۔ اس پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے امتیوں اور خاص طور پر اہلِ علم کی ہے۔ جتنے اولیاء اللہ ہیں۔ یہ سارے حضرات دراصل اللہ کے پیغام کو پہنچانے والے وہ کارندے ہیں جنہوں نے….

رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس سے عشق کیا….

ان کی تعلیمات سیکھیں….

اُن پر عمل کیا…. اور

رسول اللہ ﷺ کے مشن کو آگے بڑھایا

اس سلسلہ میں ایک بزرگ حضور قلندر بابا اولیاءؒ تشریف لائے جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم عطا فرمایا۔ جنہیں سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کا فیض نصیب ہوا۔ قلندر بابا اولیاء ؒ نے بھی وہی کام کیا جو چَودہ سو سال سے اس اُمّت کے اولیاء اللہ کر رہے ہیں۔ ایک رُوحانی سلسلہ…. سلسلۂِ عظیمیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ سلسلۂِ عظیمیہ اسی طرح کا ایک سلسلہ ہے جس طرح قادریہ سلسلہ ہے، نقشبندیہ سلسلہ، چشتیہ سلسلہ، سہروردیہ سلسلہ، فردوسیہ سلسلہ اور بہت سارے دوسرے سلاسل ہیں۔ یہ جتنے بھی سلاسل ہیں ان کا مقصد یہی ہے کہ اللہ کے پیغام اور حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کو بار بار دہرایا جائے لوگوں کو یاد کرایا جائے کہ:

جب آدمی اچھا کام کرتا ہے تو اللہ کے قریب تر ہو جاتا ہے…. اور

جب کوئی برا کام کرتا ہے تو شیطان کے قریب ہو جاتا ہے….

آج اس نشست کا مقصد انبیاءِ کرامؑ کی تعلیمات ہیں۔ انبیاءِ کرامؑ کی تعلیمات وہی ہیں جو قرآن و حدیث ہے:

اچھے کام کرو….

برے کاموں سے بچو….

نماز قائم کرو….

روزے رکھو….

حج کرو…..

زکوٰۃ ادا کرو….

کسی کا حق نہ مارو….

کسی کی دل آزاری نہ کرو….

غصہ نہ کرو….

عفو و درگزر سے کام لو….

لوگوں کو معاف کردو….

لوگوں کی خدمت کرو….

لوگوں کے کام آؤ….

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک کے علاوہ کسی کو معبود نہ جانو….

اللہ ہی پیدا کرتا ہے

اللہ ہی رزق فراہم کرتا ہے

اللہ کے پاس ہی ہمیں لَوٹ کر جانا ہے….

انبیاء علیہم الصّلوٰۃ و السّلام کی زندگی کا یہ رخ بھی سامنے رکھنا چاہئے کہ جب انبیاء علیہم الصّلوٰۃ والسّلام نے اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا تو بہت سے لوگوں نے انہیں جھٹلایا، کسی نے ان کو مجنوں کہا، کسی نے پتھر مارے انتہا یہ کہ بعض پیغمبروں کو تو لوگوں نے قتل تک کر دیا۔

اللہ کے پیغمبروں کو، ان مقدس ہستیوں کو کس جرم میں قتل کردیا گیا؟․․․․․

اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ کو ایک مانو…. بتوں کو نہ پوجو۔ وہ کہتے تھے دولت کی پرستش نہ کرو…. اَنا کے خول سے باہر آجاؤ…. غرور نہ کرو…. تکبر نہ کرو…. کس بات پر غرور کرتے ہو؟ تمہارے پاس کچھ تو ہو، آج مرجاؤ گے کچھ بھی ساتھ نہیں لے جاؤ گے۔

ایک دلچسپ مشاہدہ یہ ہے کہ مُردہ اکڑتا ہے…. زندہ شخص میں لچک ہوتی ہے۔

اب آپ دیکھئے جب آدمی مرجاتا ہے اس کے ہاتھ کو آپ سیدھا نہیں کر سکتے۔ آدمی مر جاتا ہے اس کی گردن اکڑ جاتی ہے، اس کی گردن کو آپ اِدھر اُدھر نہیں گھما سکتے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر زندہ آدمی کے اَندر بھی اکڑ مَوجود ہو تو کیا اس کی حیثیت مُردہ جسم جیسی نہیں ہوگئی․․․․․!!!

جس آدمی کے اَندر اکڑ نہیں ہے، جس آدمی کے اَندر جُھکنا ہے…. عاجزی ہے…. انکساری ہے…. وہ زندہ ہے۔ مُردہ آدمی کبھی جھکتا نہیں، مُردہ آدمی کی جو اکڑی ہوئی گردن ہے اکڑی رہتی ہے وہ جھکتی نہیں ہے۔ تو جو آدمی اس دنیا میں غرور تکبر میں مبتلا ہے…. اَنا کے خول میں بند ہے…. غیر اسلامی روایات میں…. تکبر اور اکڑ لئے ہوئے ہے، آپ یقین کریں وہ آدمی مُردہ کی طرح ہے۔

اللہ نے کِبر کو منع فرمایا ہے….

اللہ نے کسی کی غیبت کو منع فرمایا ہے….

اللہ نے حق تلفی کو منع فرمایا ہے…..

فرمایا کہ دو گناہ معاف نہیں․․․․ ایک شرک معاف نہیں اور ایک حق تلفی معاف نہیں۔ اس کا مطلب ہے یہاں جو بندہ کسی بندے کی حق تلفی کرتا ہے وہ شرک کے برابر گناہ کرتا ہے اور جو بندہ اپنے حقوق کی طرح دوسروں کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے وہ اللہ کے نزدیک برگزیدہ بندہ ہے۔

الٰہی مشن کو پھیلانے میں انبیاء علیہم الصّلوٰۃ و السّلام نے جو کچھ کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ حضور پاک ﷺ کی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ کیا کچھ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہیں کیا، بائکاہٹ کردیا، شعب ابی طالب میں حضور پاک ﷺ اور آپ ﷺ کے خاندان کو قید کردیا۔ طائف میں اتنے پتھر مارے کہ رسول اللہ ﷺ کے پیر خون خون ہوگئے اور جوتے خون سے بھر گئے۔ مکہ سے ہجرت کر کے حضور ﷺ مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔

وہ لوگ جن کے ذمہ یہ ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو آپ ﷺ کے مشن کو لوگوں تک پھیلائیں گے، آگے بڑھائیں گے، ان کے اَندر یہ ساری خوبیاں ہونی چاہئیں:

ان میں کِبر نہیں ہونا چاہئے….

انہیں کسی کی حق تلفی نہیں کرنی ہے….

جھوٹ نہیں بولنا….

تکبر نہیں کرنا ہے….

اللہ کو اپنا خالق و مالک، قادرِ مطلق سمجھنا ہے…. اور

لوگوں کی خدمت کرکے خوش ہونا ہے….

کسی مشن کی ترویج کیلئے کئی باتیں ضروری ہیں، ایک تو یہی بات ضروری ہے کہ آپ قرآن و حدیث کی رہنمائی میں اپنی تقریر کے ذریعہ لوگوں تک اپنی بات پہنچائیں، تقریر کے بعد سوال و جواب کے ذریعے لوگوں کی تسلی، تشفی کریں، آج کل میڈیا کا دَور ہے…. میڈیا سے بھی کام لیا جائے۔

اب کوئی آدمی ریڈیو پر بات کہہ سکتا ہے، وہ ریڈیو پر کہہ دے۔ کوئی آدمی مضمون لکھ کر کوئی بات کہہ سکتا ہے، وہ مضمون لکھ دے۔ کوئی آدمی سلسلہ کا لٹریچر تقسیم کردے۔

اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ:

*** تحریر و تقریر میں ایسی کوئی بات کبھی نہیں کہنی چاہئے جس سے کسی کی دل آزاری ہو ***

آپ نے اپنے بزرگوں سے یقیناً سنا ہوگا اور آپ کے تجربہ میں بھی یہ بات ضرور ہوگی کہ بظاہر پانی کے قطرے کی کوئی وقعت ہے نہ اس میں کوئی وزن ہے۔ اس کی چوٹ بھی قابل ذکر نہیں ہوتی لیکن قطرہ مسلسل کسی ایک جگہ گرتا رہے تو اس سے پتھر میں سوراخ ہوجاتا ہے اور وہ سوراخ بڑا ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ بعض جگہ اتنا بڑا بھی ہوجاتا ہے کہ اس میں سے آدمی گزر جاتا ہے۔

اِدھر اُدھر بکھری ہوئی لکڑیوں کو جمع کر کے ترتیب سے دیواروں پر رکھ دیں․․․․․ اور ان پر پھوس ڈال دیں تو چھت بن جاتی ہے، اس میں سے دھوپ نہیں آتی نہ ہی بارش کا قطرہ کمرے میں آتا ہے۔

جُوٹ (JUTE) ایک قسم کی گھاس ہے۔ جُوٹ کے ریشے اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ معمولی دباؤ سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ لیکن اس ہی جوٹ کو باہم دِگر ایک دوسرے میں پیوست کردیا جائے یعنی انہیں متحد کردیاجائے تو ایک رسہ بن جاتا ہے اور اس رسے سے سمندر میں پانی کے جہاز کو باندھ دیا جاتا ہے تو سمندر کی بڑی بڑی لہریں پانی کے جہاز کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔

اب اور زیادہ اس نقطہ پر غور کریں․․․․․دُھنیہ روئی دُھنتا ہے تو روئی اتنے باریک ریشوں میں تبدیل ہوجاتی ہے کہ آپ زور سے پھونک ماریں تو روئی کا بڑا گالہ اِدھر سے اُدھر چلا جاتا ہے لیکن جب آپ اسی روئی کو اکھٹا کرکے اس کا دھاگہ بنا لیتے ہیں تو ان دھاگوں کے تانے بانے سے اتنا مضبوط کپڑا بن جاتا ہے کہ آپ اس کی ترپال بنا لیتے ہیں۔ بوریاں بُن کر گندم اور چاول کا ذخیرہ کرتے ہیں۔

آپ غور فرمائیے․․․․․ آپ کے سامنے درخت ہے ․․․․․جب تک درخت کا تنا نہیں بنتا․․․․․ چٹکی سے ٹوٹ جاتا ہے لیکن جب درخت کے عناصر اور درخت کے اَندر کا سسٹم یکجا ہوجاتا ہے تو بیس بیس آدمی بھی درخت کو زمین سے اکھاڑ نہیں سکتے۔

درخت کیوں مضبوط ہوا؟․․․․․

اسلئے کہ درخت نے اپنے سسٹم کو قبول کر لیا اور اسے متحد کرکے جڑوں، تنے اور شاخوں پر قائم کردیا۔

حضور پاک ﷺ کی سیرت طیبہ ہر مسلمان کے سامنے ہے۔

حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے توحید کا پرچار کیا ہے ․․․․․ وحدانیت کا پرچار کیا ہے ․․․․․

اللہ کی یکتائی اور ربوبیت کا اعلان کیا ہے ․․․․․ اللہ نے اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے نفاق کو ناپسند کیا ہے ․․․․․ تفرقہ بازی سے منع فرمایا ہے ․․․․․توحید کے پلیٹ فارم پر اجتماعی زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے ․․․․․

رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں ہم اتحاد کی دعوت دیتے ہیں اور تفرقہ کی مذمّت کرتے ہیں۔

ہم اپنی قوم سے پیغمبرانہ طرزِ فکر کو اپنا کر اللہ کی رسی کو متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ تھام لینے کی درخواست کرتے ہیں․․․․․․

ہم یاد دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ مضبوط رسی سے بڑی بڑی طاغوتی طاقتوں اور بڑی سے بڑی شیطنت کو باندھ کر ان کا قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔

ہم پوری دنیا کو ایک قافلہ تصور کرتے ہیں․․․․․․ قافلہ میں جو لوگ جا رہے ہیں ان کی ساری ضروریات بھی ان کے ساتھ جارہی ہیں․․․․․ مثلاً انہیں بھوک بھی لگے گی، ان کو کپڑوں کی بھی ضرورت ہے، قافلہ میں شریک لوگوں کو جوتے پہننے ہیں، جب کہیں پڑاؤ ہوگا تو وہاں رہائش کا انتظام کرنا بھی ضروری ہے، رہائش کے لئے مکان کی، چھولداریوں کی، قناتوں کی اور خیموں کی ضرورت ہوگی ․․․․․ قافلہ میں کمزور بھی ہیں، طاقتور بھی ہیں، ضعیف بھی ہیں، پڑھے لکھے بھی ہیں اور کم پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں۔ قافلہ میں موچی، درزی، کارپینٹر،․․․․․ غرض ہر وہ بندہ ہے جس کی ضرورت قافلہ کو پیش آسکتی ہے ․․․․․ قافلہ میں امیر بھی ہے، نائب امیر بھی ہے، قافلہ میں ایسے لوگ بھی ہیں جو خدمت گزاری میں مصروف ہیں اور ایسے لوگ بھی ہیں جو لوگوں سے خدمت لینے پر مامور ہیں۔

ہمیں سوچنا یہ ہے کہ قافلہ میں سے کسی ایک کڑی کو اگر نکال دیا جائے ․․․․․ تو کیا قافلہ چلتا رہے گا؟․․․․․․

ہر گز نہیں !

کام رک جائے گا…. مربوط نظام ٹوٹ جائے گا…. شناخت ختم ہوجائے گی….

قافلہ نہیں رہے گا تو اسے منتشر گروہ کہا جائے گا․․․․․

میرے دوستو! ہمارا مشن رسول اللہ ﷺ کا مشن ہے ․․․․․ رسول اللہ ﷺ نے جو طرزِ فکرہمیں عطا فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ:

جو اپنے لئے چاہو․․․․․ وہی اپنے بھائیوں کیلئے بھی چاہو….

جو بات اپنے لئے ناپسند ہے…. وہ بات اپنے بھائیوں کیلئے بھی ناپسند کرو….

رسول اللہ ﷺ کے رُوحانی مشن کو چلانے والے حضرات اور خواتین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی نفی کر کے دوسروں کا اِثبات کریں۔ اِثبات کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خود ایثار کریں․․․․․ خود قربانی دیں، لوگوں کی غلطیاں پکڑنے کے بجائے اپنی غلطیاں تلاش کریں۔ لوگوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کی طرف بھی توجّہ دیں․․․․․

اصلاح کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ڈانٹ ڈپٹ کرکے، برا بھلا کہہ کر اصلاح کی جائے۔ خامیوں اور کوتاہیوں کا تلاش کر کے بار بار اس کا احساس دلایا جائے ․․․․․

دوسرا طریقہ ہے کہ آپ خود اپنی اصلاح کریں، دوسروں کا تزکیہ اس طرح کرنے کی کوشش کی جائے کہ ان کی ذات کی خامیاں اور کوتاہیاں ان کیلئے شرمندگی کا سبب بنے بغیر ان کی شخصیت سے مِنہا ہوجائیں اور خامیوں کی جگہ اعلیٰ اوصاف شخصیت میں نمایاں ہوجائیں، ایسی تربیت سے آدمی کے اِنّر (INNER) میں تبدیلی آجاتی ہے۔

یہ انسانی جبلّت ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو چھپاتا ہے۔ دوسروں کی غلطیوں پر تادیبی کاروائی کرتا ہے ․․․․․ تادیبی کاروائی بھی ضروری ہے لیکن اس وقت جب بغیر تادیب کے اصلاحِ احوال کی گنجائش نظر نہ آئے اور اجتماعی نظم بگڑنے کا خطرہ ہو، پانی سر سے اونچا ہونے لگے۔ جب تک پانی سر سے اونچا نہ ہو اس وقت تک اصلاح کا طریقہ ہے کہ نہایت خوبصورت اور مؤثر پیرائے میں غلطیوں کی نشاندہی کی جائے۔ ساتھ ساتھ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جس غلطی پر ہم تادیبی کاروائی کر رہے ہیں ․․․․․ وہ غلطی ہمارے اَندر تو نہیں ہے ․․․․․؟

ہر آدمی دوسرے آدمی کی غلطی کی کھوج میں مصروف رہتا ہے، وہ کبھی نہیں سوچتا کہ میرے اَندر بھی کمزوریاں ہیں․․․․․ رسول اللہ ﷺ کی طرزِ فکر، تمام انبیاء علیہم الصّلوٰۃ و السّلام کی طرزِ فکر، اللہ کی طرزِ فکر پر ہے ․․․․․

اللہ ستار العیوب ہے ․․․․․․ عیبوں کو چھپاتا ہے ․․․․․

اللہ غفار الذّنوب ہے…. لوگوں کی کوتاہیوں، غلطیوں اور لغزشوں کو معاف فرماتا ہے ․․․․․․

اگر رُوحانی مشن میں کام کرنے والے کسی شخص میں معافی اور در گزر کے جذبات مَوجود نہیں ہیں تو اسے یہ دیکھنا چاہئے کہ کہیں وہ اللہ تعالیٰ کی ستار العیوب اور غفار الذنوب والی صفات کی پیروی سے اِنحراف کا مرتکب تو نہیں ہو رہا….!!

اللہ ایک ہے ․․․․․ اللہ خالق ہے ․․․․․ یکتا ہے ․․․․․ اس نے محبت کے ساتھ آپ کو بنایا ہے۔ سب کو بنایا ہے۔ سب کو تخلیق کیا ہے لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ مخلوق اللہ سے شکوہ کرتی رہتی ہے ․․․․․

آپ کو اللہ کی قسم ہے…. !

آپ بتائیں کہ ․․․․

اللہ نے کبھی پانی بند کیا ہے ․․․․؟

ہَوا بند کی ہے ․․․․؟

آپ کے اَندر دل، گردے، پھیپھڑوں پر مشتمل مستعدی سے کام کرنے والی مشینری کبھی بند ہوئی ہے….؟

رات دن ہم سے غلطیوں سرزَد ہوتی ہیں ․․․․․․ کیا اللہ نے سورج کو منع کیا ہے کہ دھوپ اور روشنی نہ دے ․․․․؟

چاند کو منع کیا ہے کہ روشن نہ ہو․․․․؟

بارش کو نہ برسنے کا کبھی حکم دیا ہے ․․․․؟

اللہ تعال

Topics


خطبات لاہور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اِنتساب

اُس جبلِ نور کے نام…..

جہاں سےمُتجلّیٰ ہونے والے نورِ ہدایت نے نوعِ انسانی کی ہرمعاملے میں راہنمائی فرما کرقلوب کی بنجر زمین کو معرفتِ اِلٰہیہ سےحیات عاو کرنے کا نظام دیا