Topics
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
’’میری سنت میں تبدیلی ہوتی ہے اور نہ تعطل واقع ہوتا ہے۔‘‘
اپنی مشیئت کے تحت اللہ تعالیٰ نے اچھائی، برائی کا تصور قائم کرنے اور نیکی اور بدی میں امتیاز کرنے کے لئے پیغمبروں کے ذریعے احکامات صادر فرمائے۔ سب پیغمبروں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کر کے نوع انسانی کو بتایا ہے کہ اللہ کے حکم کی تعمیل ہی نجات کا راستہ ہے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی ہیں۔ اور دین کی تکمیل ہو چکی ہے۔ اس لئے اللہ کی سنت جاری رکھنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء اولیاء اللہ کی جماعت نے اس بات کا اہتمام کیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات اور احکامات کا تسلسل قائم رہے۔ ہر زمانے میں اولیاء اللہ خواتین و حضرات نے اس فرض کو پورا کیا اور قیامت تک یہ سلسلہ قائم رہے گا۔
ہندو پاکستان، برما، ملائیشیا، انڈونیشیا، افریقہ، ایران، عراق، عرب، چین اور ہر ملک میں اولیاء اللہ نے تبلیغ کی، اللہ کی مخلوق کی خدمت کی، زمانے کے تقاضوں کے مطابق توحید کی دعوت دی۔
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں، اگر شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ ، خواجہ حسن بصریؒ ، حضرت داتا گنج بخشؒ ، شیخ معین الدین چشتی اجمیریؒ ، حضرت بہاؤ الدین زکریاؒ ، بہاؤالحق نقشبندؒ ، لعل شہباز قلندرؒ ، شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ ، قلندر بابا اولیاءؒ اور دوسرے مقتدر اہل باطن صوفیاء اسلام کی آبیاری نہ کرتے تو آج دنیا میں مسلمان اتنی بڑی تعداد میں نہ ہوتے۔ صوفیاء کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نیابت و وراثت کا حق پورا کرنے کے لئے اپنا تن، من، دھن سب قربان کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان مکی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمایا اور انہیں کامران و کامیاب کیا۔
صوفیاء کرام یقینی طور پر یہ بات جانتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ بندہ اگر کچھ کرتا ہے تو اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات و احکامات کے تحت کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
’’میرا بندہ قرب نوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہو جاتا ہے، وہ مجھے دیکھتا ہے، مجھ سے سنتا ہے اور مجھ سے بولتا ہے۔‘‘
یعنی ایسے بندے کے افعال و اعمال اللہ کے تابع ہو جاتے ہیں۔
دو سو سلاسل:
دنیا میں تقریباً دو سو سلاسل ہیں۔ جو شریعت و طریقت کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے عرفان ذات، تسخیر کائنات کے فارمولوں اور پیغمبرانہ طرز فکر کی تعلیم دیتے ہیں۔
ان سلسلوں کی قائم کردہ روحانی درسگاہوں میں سالک کی تربیت اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اوپر اللہ کو محیط دیکھ لے، سالک اللہ سے محبت کرتا ہے، اللہ کے پسندیدہ کام ڈر کر اور خوفزدہ ہو کر نہیں بلکہ اللہ کی محبت میں اس لئے کرتا ہے کہ اللہ مجھ سے خوش ہو جائے۔ اللہ کے ناپسندیدہ اعمال سے اس لئے اجتناب کرتا ہے کہ اللہ میرا کفیل ہے، میرا محافظ ہے اور میرا خالق ہے۔
قیام صلوٰۃ، عبادات اور مراقبوں کے ذریعہ اللہ کو اپنے اندر ڈھونڈتا ہے۔ سالک کی زندگی کا مقصد اللہ کا دیدار اور اللہ سے ہمکلامی ہے۔ سلسلہ کے اسباق پر مداومت کر کے اور مرشد کریم کی نسبت و محبت سے یہ عمل اس کا یقین بن جاتا ہے کہ میں اللہ کے پاس سے آیا ہوں اور مجھے اللہ کے پاس جانا ہے۔ خدمت خلق اور عفو و درگذر اس کی زندگی کا نصب العین بن جاتے ہیں۔
برصغیر میں جو سلاسل مشہور ہیں ان کے علاوہ اور بھی کئی سلسلے ہیں جو ساری دنیا میں رشد و ہدایت اور ماورائی علوم کی تعلیم دیتے ہیں۔ مثلاً
* سلسلہ قادریہ * سلسلہ جنیدیہ * سلسلہ کبرویہ
* سلسلہ فردوسیہ * سلسلہ چشتیہ * سلسلہ شطاریہ
ٍ * سلسلہ سہروردیہ * سلسلہ نقشبندیہ * سلسلہ عظیمیہ
سلاسل کی معلوم تعداد دو سو بتائی جاتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں
تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔
میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)
پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری
وائس چانسلر
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان
انتساب
کائنات میں پہلے
صوفی
حضرت آدم علیہ السلام
کے نام
خلاصہ
ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے
اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے
جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے
وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے