Topics

روشنیوں کا اسراف


یہ بات کون نہیں جا نتا کہ کا ئنات میں موجود ہر شئے پیدا ہو تی ہے پھر اپنے عروج کو پہنچتی ہے اور پھر شئے کا انحطاط کا دور آتا ہے اور بتدریج تیزی کے ساتھ یا کچھ زیادہ وقفہ کے بعد شئے انجام کا رفنا ہو جا تی ہے ۔بالکل یہی صورت حال آدمی کی بھی ہے آدمی پیدا ہوتا ہے معصومیت کے دور سے گزر کر شعور کی دنیا میں قدم بڑھاتا ہے  اور شعوری زندگی کو معراج سمجھنے والا ذی ہو ش، عاقل و با لغ انسان گھٹنا شرو ع ہو جا تا ہے اور ایک ایسادور آتا ہے کہ اعصاب انسانی عمارت کا بوجھ اٹھا نے کا خود کو اہل نہیں سمجھتے اور جب انسانی عمارت اینٹ پتھر (ہڈیوں کا پنجر )چو نا اور گا را(اعصاب و عضلات )، پلاسٹر (گو شت پو ست )اوررنگ و روپ کھال اپنی طاقت کھوبیٹھتے ہیں تو یہ عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جا تی ہے ۔ 

حرکت کے قانون کے مشاہدے سے یہ کلیہ سامنے آتا ہے کہ ہر حر کت کر نے والی چیز میں کو ئی چیز ذخیرہ ہو تی ہے اور یہ ذخیرہ جب اس کے اندر جلتا ہے تو یہ چیز حر کت کر تی ہے ۔ موٹر کار یا ہوا ئی جہاز میں پٹرول جلتا ہے ، لالٹین میں کروسن آئل جلتا ہے ، تیز روشن بلب میں بجلی جلتی ہے اور آدمی کے اندر انرجی کیلو ریز خر چ ہو تی ہیں ۔ جتنی زیادہ کیلوریز (Calories)ذخیرہ ہو تی ہیں ، آدمی اسی منا سبت سے زیادہ طا قتور زیادہ فعال اور زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے کیلوریز میں جس منا سبت سے کمی واقع ہو تی ہے اسی منا سبت سے انسانی صحت متا ثر ہو تی رہتی ہے ۔ جس طر ح ایک گا ڑی پٹرول کے تر سیل نہ ہو نے سے جھٹکے کھا نے لگتی ہے آدمی بھی اسی طرح گر تا اٹھتا رہتا ہے یہ گر نا اور اٹھنا اس کی اعلیٰ یا اسفل صحت کی نشاندہی کر تا ہے ۔ 

اللہ تعالیٰ کے فر مان کے بموجب آدمی کو سڑے ہو ئے گا رے اور کھنکھناتی مٹی سے بنا یا گیا ہے۔اس نا قابل تذکرہ شئے میں اللہ نے اپنی رُوح ڈال دی اور یہ ایک ایساکھلونا بن گیا کہ سنتا بھی ہے ،دیکھتا بھی ہے ، چکھتا بھی ہے ، محسوس بھی کر تا ہے ۔ آدمی کا چلنا پھر نا ، سو نا جا گنا ، کھا نا پینا اختیار استعمال کر نا یہ سب اسی وجہ سے ہے کہ اس کے اندر رو شنیاں ذخیرہ کر دی گئیں ۔ روشنیوں کا اسراف بے جا اسے جلدی نڈھال کر دیتا ہے اور رو شنیوں کا وافر ذخیرہ اسے زیادہ دیر تک صحت مند اور فعال رکھتا ہے کو ئی آدمی جتنا زیادہ دنیا وی معاملات میں مصرو ف رہتا ہے اتنا ہی اس کے اندر سکون اور اطمینان قلب کم ہو تا ہے ۔ 

دنیا وی آسائش و آرام کی حیثیت اپنی جگہ اہم سہی لیکن قانون قدرت یہ ہے کہ جب انسان کسی ایک چیز کی طر ف متوجہ ہو تا ہے تووہ چیز انسانی دماغ پہ نمودار ہو کر ڈسپلے ہو تی ہے ۔ اور اس ڈسپلے (Display)میں وہ روشنیاں خرچ ہو تی ہیں جو ذخیرہ ہیں اور ذخیرے کو انسانی دماغ کے دو کھر ب خلیات جنریٹ(Generate) کر رہےہیں۔ 

اگر ایک گھر کے چار کمروں میں سے ایک کمرے کے اندر دس چیزیں ہیں مثلاً صوفہ سیٹ ، ریڈیو ، ٹی وی ، میز اور دو سرے سامان تزئین و آرائش ,اوردو سرے کمرے میں صرف ایک بیڈ ہے تو کمرے کی دس چیزوں پر جب ہماری نظر پڑتی ہے تو ہمارے اندر سے ذخیرہ شدہ رو شنیاں ان دس چیزوں کو دماغی اسکرین پر ڈسپلے کر تی ہیں یعنی جو رو شنی ایک روشنی کے لئے خرچ ہو نی چا ہئے تھی اس کا دس گنا بڑھ جا تا ہے ۔ 

عا م مشاہدہ یہ ہے کہ سیدھے سادے آدمی کی صحت زیادہ اچھی اور عمر طویل ہو تی ہے ۔ جب کہ دنیا وی جھمیلوں میں ’’بند ذہن ‘‘ آدمی کی صحت کمزور ہو تی ہے اور اس کی عمر بھی کم ہو تی ہے ۔ بات یہی ہے کہ ایک آدمی کے اندر ذخیرہ شدہ ،خرچ زیادہ ہے۔سب جا نتے ہیں کہ زیادہ خر چ کر نے والا آدمی قلاش ہو جا تا ہے ۔ 

رو حانی نقطہ نظر سے جب کو ئی بچہ بطن ما در سے زمین کی بساط پر آتا ہے تو اس کے اندر پا نچ ہزار سال کی عمر گزارنے کے لئے رو شنیوں کا ذخیرہ ہو تا ہے ۔ جس کو وہ اپنی نا دانی جھو ٹے وقار اور خود نما ئی کے عمل سے اتنا زیادہ خر چ کر دیتا ہے کہ پا نچ ہزار سال کی عمر پچاس یا ساٹھ سال کی عمر بن جا تی ہے ۔ یعنی پا نچ ہزار سال زندہ رہنے والا آدمی اپنی عمر کا اسراف بےجا کر کے پچا س یا ساٹھ سال میں اسے ختم کر دیتا ہے ۔ 

قانو ن یہ ہے کہ مطمئن اور پر سکون آدمی کی صحت اچھی رہتی ہے اسے بھوک خوب لگتی ہے ۔ نیند کی آغوش اس کی منتظررہتی ہے اور وہ زیادہ دیر زندہ رہتا ہے ۔انتشار اور ذہنی خلفشار میں مبتلا آدمی کے اندر ضرورت سے بہت زیادہ  کیلوریزخرچ ہو تی ہیں۔ پیٹ کی آگ بھی اس کے ساتھ لگی ہو ئی ہو تی ہے اور پھر اس کو بھڑکا نے کے لئے اس کو بجھانے کے لئے دواؤں کا سہا را لینا پڑتا ہے ۔ سونا تووہ چا ہتا ہے کہ نیند اعصابی توانا ئی کے لئے بہترین ٹانک (TONIC)ہے لیکن نیند اسے نہیں آتی ہر ذی رو ح کی طر ح اس کے اندر بھی خوشی ابلنا چا ہتی ہے مگر غم و آلام وکثرت سُودوزیاں کے تا ثرات یہ خوشی با ہر نہیں آنے دیتے پھروہ ایک چہرے پر ملمع شدہ کئی چہرے سجا کر اپنے اندر کا کرب چھپا تا ہے اس کرب میں کیلوریز کا خرچ اپنی انتہاء کو پہنچ جا تا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بہ صدحسرت و یاس الدُّنیا وَالاٰخِر ۃ کے مصداق اس عالم کو بے مراد سدھارجاتا ہے جہاں کا روبار ہے ، نہ فیکٹریاں ہیں نہ عالیشان محلات ۔۔۔البتہ اس کے مقدر کا سارا سر مایہ ۲فٹ بائی ۳ فٹ ایک بے آب و گیاہ گڑ ھا بن جا تا ہے اور زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ اس دنیا پر ست آدمی کے جسم کے ذرات کو چرند پرند اور عام لوگ پیروں میں رو ندے ہو ئے گزر جا تے ہیں ۔ 



آواز دوست

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔