Topics

روح کا لباس

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اساتذہ کرام، طالبات اور طلبا!

السلام علیکم۔

آج کی کلاس میں جسم و جان کے رشتے کے حوالے سے ہمیں قرآن پاک سے راہنمائی لینی ہے۔ قرآن پاک جسم کے بارے میں کیا وضاحت کرتا ہے اور قرآن پاک میں روح کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کہا ارشاد کیا ہے۔ آج روح اور مادی جسم کے سلسلے میں جو اشکال اور متشابہات ہیں یا پریشانیاں لاحق ہیں، ہم سب ان کے بارے میں غور و فکر کریں گے۔ انشاء اللہ۔۔۔۔۔۔سوال کرنے اور جواب سننے میں فائدہ یہ ہے کہ سوال کرنے والے کو معلومات حاصل ہو جاتی ہیں جبکہ جواب دینے والے کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لئے کہ نئے نئے سوالات اور ان کی تشریحات لیکچرار کے لئے علمی سرمایہ بن جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں انسانی جسم کا تذکرہ فرمایا ہے کہ انسان کو مٹی سے تخلیق کیا ہے۔ یہ بھی فرمایا ہے کہ گندھے، سڑے ہوئے، تعفن والے گارے سے پیدا کیا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس مٹی سے انسان کو پیدا کیا ہے وہ بجنی مٹی ہے۔ بجنی سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو خلا سے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کا پتلا بنایا اور اس پتلے کے اندر اپنی روح پھونک دی۔ جب انسان کے اندر جان پڑ گئی توانسان میں حواس متحرک ہو گئے۔ غور کیجئے تو ساری زندگی حواس پر مشتمل ہے۔ سننا، دیکھنا، محسوس کرنا، چکھنا اور سونگھنا سب حواس کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

اس علمی محفل میں ہمیں اس بات کا پتہ کرنا ہے کہ جسم اور اعضا کی حیثیت کیا ہے۔ جسم کے Organsسے ہم واقف ہیں۔ دماغ، آنکھیں، کان، دل، گردے وغیرہ وغیرہ جسم کے Organsہیں لیکن ہمیں اس بات سے واقفیت حاصل نہیں ہے کہ دل کی Beatیا دل کی حرکت کہاں سے آ رہی ہے اور اس حرکت کا Sourceکیا ہے؟ وہ کون سا قانون اور علم ہے اور کون سی انفارمیشن ہے، جس کی بنیاد پر دل حرکت کرنا بند کر دیتا ہے اور آدمی مر جاتا ہے۔ لیکن اگر دل کی حرکت دوبارہ شروع ہو جائے تو آدمی زندہ ہو جاتا ہے۔

دوسری بات ہم نے یہ معلوم کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو جوڑے جوڑے بنایا ہے۔ یعنی کائنات میں کوئی شئے ایسی نہیں ہے جو ایک Unitپر تخلیق ہوئی ہو۔ ہر Unitدو رخوں سے مرکب ہے۔ انسانی حواس بھی دو رخوں سے مرکب ہیں۔ ایک رخ ٹائم اسپیس کا پابند ہے اور دوسرا رخ ٹائم اسپیس سے آزاد ہے۔ اس کی Practiceہمیں چوبیس گھنٹے میں دو دفعہ ہوتی ہے۔ جب ہم بیدار ہوتے ہیں اور جب ہم سوتے ہیں، چوبیس گھنٹے میں دو دفعہ ہم اس Practiceسے گزرتے ہیں کہ کبھی ہمارے اوپر ٹائم اسپیس مسلط ہو جاتی ہے اور کبھی ہم ٹائم اسپیس سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اس کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بڑی وضاحت سے ارشاد فرمایا ہے اور زندگی کے ان دو رخوں کا نام ۔۔۔لیل۔۔۔اور۔۔۔نہار۔۔۔رکھا ہے۔ یعنی رات اور دن۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:

“ہم رات میں سے دن کو نکال لیتے ہیں اور دن میں سے رات کو نکال لیتے ہیں۔”

سورۃ یٰسین میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:

“ہم دن پر سے رات کو ادھیڑ لیتے ہیں اور رات پر سے دن کو ادھیڑ لیتے ہیں۔”

یہ دو رخ انسان کی زندگی کے ساتھ پیدائش کے پہلے ہی لمحے میں شروع ہو جاتے ہیں اور مرتے دم تک یہ دونوں رخ اس کے ساتھ چپکے رہتے ہیں۔ ان دونوں رخوں کے علاوہ کوئی انسان کسی بھی طرح زندگی کا تصور نہیں کر سکتا۔

جب ہم بیدار ہوتے ہیں تو ہمارے اوپر ٹائم اسپیس مسلط ہو جاتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم دو قدم بھی چلنا چاہیں تو ان دو قدموں میں ہمیں اسپیس سے گزرنا ہو گا اور ٹائم سے بھی گزرنا ہو گا۔ جب ہم دو قدم اٹھاتے ہیں تو ایک قدم اور دوسرے قدم کے درمیان جو زمین ہے اسے ہم اسپیس کہتے ہیں۔ ہم جب دس قدم اٹھاتے ہیں تو دس قدم کے درمیان، ایک قدم اٹھا کر دوسرا قدم رکھیں گے، دوسرے کے بعد تیسرا رکھیں گے۔

انسان دو ٹانگوں پر کھڑا ہوا ہے، اس نے ایک قدم اٹھایا، پھر دوسرا قدم اٹھایا۔ ایک قدم سے دوسرے قدم کا درمیانی فاصلہ اسپیس ہے۔ اگر اس نے دس قدم اٹھائے تو اسپیس کے یونٹ دس ہو گئے۔ ان دس قدموں میں اگر ہم نے چوتھائی سیکنڈ میں ایک قدم اٹھایا تو دس قدم میں ڈھائی سیکنڈ کا وقفہ گزر گیا۔ ڈھائی سیکنڈ کا وقفہ Timeہے اور دس قدم زمین پر سے پھلانگنا Spaceہے۔ بیداری میں ہر انسان اس قانون کا پابند ہے۔ کوئی انسان اسپیس سے یا ٹائم سے گزرے بغیر زمین پر چل نہیں سکتا۔ بیداری کے اس عمل کو قرآن نے ۔۔۔۔۔۔نہار۔۔۔۔۔۔کہا ہے۔ بیداری کے بعد خواب کا عمل ہے۔ انسان، شجر، حجر، حیوان، پرندہ کوئی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ 

ہر انسان سوتا ہے، سونے کے بعد بیدار ہوتا ہے اور بیدار ہونے کے بعد سوتا ہے۔ انسانوں کی طرح درخت بھی سوتے ہیں، حشرات الارض بھی سوتے ہیں، چوپائے بھی سوتے ہیں اور پہاڑ بھی سوتے ہیں۔

تاریخ انسانی کو سائنسی نقطۂ نگاہ سے بیان کیا جائے، (جس کی کوئی سند نہیں ہے) Scientistکہتے ہیں کہ دنیا کی عمر تقریباً ساڑھے تین ارب سال ہے۔ ساڑھے تین ارب سال کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال ہمارے سامنے نہیں ہے کہ کوئی آدمی ساری زندگی جاگتا رہا ہو یا کوئی آدمی ساری زندگی سوتا رہا ہو۔ جب ہم سوتے ہیں تو ہمارے اوپر سے ٹائم اسپیس کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ مثلاً ہم اپنے شہر یا گاؤں میں سوتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان کے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سعادت سے بہرہ ور کرے۔ ہم خواب میں یہ دیکھتے ہیں کہ ہم مسجد نبوی میں کھڑے ہیں اور اپنے آقا و مولا سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر۔۔۔۔۔۔الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ۔۔۔۔۔۔پڑھ رہے ہیں۔ اگر ہم بیداری کی حالت میں اس پوزیشن میں رسول اللہﷺ کے سامنے حاضر ہوں اور ہم پانی کے جہاز سے چلیں تو آٹھ دن کا عرصہ لگتا ہے۔ اونٹ پر چلیں تو تین چار مہینے کا وقفہ لگتا ہے۔ ہوائی جہاز میں جائیں تو گھنٹوں کا وقفہ لگتا ہے۔ کسی بھی حال میں وقفے کے بغیر ہم مسجد نبوی میں حاضری نہیں دے سکتے۔ لیکن جب ہم خواب دیکھتے ہیں تو خواب میں ہم رسول اللہﷺ کے مزار اقدس پر سیکنڈ کے ہزارویں Fractionمیں حاضر ہو جاتے ہیں، سلام پڑھتے ہیں۔ ہم سیکنڈ کے ہزارویں Fractionمیں پھر اپنے جسم میں آ موجود ہوتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خواب کی زندگی میں ٹائم اسپیس کی گرفت سے ہر انسان آزاد ہو سکتا ہے۔ جسم و جان کے رشتے میں خواب کی بڑی اہمیت ہے۔ بیداری کی بھی اہمیت ہے۔ ٹائم اسپیس کی بھی اہمیت ہے، ٹائم اسپیس سے آزاد ہونے کی بھی اہمیت ہے۔ آپ سوال کریں میں اپنی کم علمی کو سامنے رکھ کر سوال کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں سوالات کا صحیح جواب پیش کر سکوں اور اللہ تعالیٰ میرے اور آپ کے علم میں اضافہ کرے کہ انسانی جسم سے متعلق اور روحانی علم سے متعلق ہماری معلومات میں اضافہ ہو۔ (آمین)

سوال: عظیمی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ میں پشاور کا ہوں، میری زبان پشتو ہے، کسی غیر ملکی شخص سے میں خواب میں ملتا ہوں، اب یہاں پر جب میں بیدار ہوتا ہوں تو کہتا ہوں کہ میں نے اس سے یہ کہا، اس نے مجھ سے یہ کہا۔ خواب میں کون سی زبان بولی جاتی ہے؟ اس سلسلے میں حضرت عبدالعزیزدباغؒ صاحب نے لکھا ہے کہ خواب کی زبان سُریانی ہے؟ 

جواب: زندگی ایک رخ نہیں، ہمیشہ دو رخوں پر سفر کرتی ہے۔ قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو “جوڑے جوڑے” بنایا ہے۔ اس میں زبان بھی شامل ہے۔ زبان کے بھی دو رخ ہیں۔ زبان کا ایک رخ یہ ہے جو ہم آپس میں بولتے ہیں۔ مثلاً کوئی پشتو بولتا ہے، کوئی اردو بولتا ہے، کوئی سندھی بولتا ہے، کوئی انگریزی بولتا ہے اور زبان کا ایک رخ اشاروں کی زبان ہے۔ مثلاً آپ ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ کے بے تکلف دوست وہاں موجود ہیں۔ آپ نہیں چاہتے کہ آپ کے بے تکلف دوستوں میں آپ کا بیٹا کمرے میں آئے۔ دروازہ کھلتا ہے بیٹا داخل ہوتا ہے۔ آپ اس سے کچھ نہیں کہتے، مخصوص نظر سے دیکھتے ہیں اور آپ کے دماغ میں یہ بات ہوتی ہے، بیٹا یہاں نہیں آؤ، بیٹا کمرے سے چلا جاتا ہے ، آپ نے کوئی زبان استعمال نہیں کی۔ آپ کا بیٹا آپ کے خیالات کو پڑھ کر جو کچھ آپ اس سے کہنا چاہتے ہیں وہ سمجھ لیتا ہے۔ خواب میں جو زبان بولی جاتی ہے وہ اشاروں کنائیوں کی زبان ہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے میں آپ نے پڑھا ہو گا کہ انہوں نے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور چاند اور سورج ہے اور مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے خواب سن کر فرمایا:

“اے بیٹے! یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا۔ شیطان میں بڑا مکر ہے، ہو سکتا ہے وہ تمہیں کوئی نقصان پہنچائیں۔”

بھائیوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی اس بات کو سن لیا اور اس کے بعد جو واقعہ پیش آیا وہ ہم سب جانتے ہیں۔ جو زبان خواب میں حضرت یوسف علیہ السلام کو بتائی گئی یعنی گیارہ ستارے، چاند، سورج اس میں بظاہر بھائیوں کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا لیکن حضرت یعقوب علیہ السلام نے خواب کی زبان کا مطلب سمجھ لیا۔

ہمارے بزرگوں نے اپنے شاگردوں کو بتایا ہے کہ روحانیت کی سترہ Classesہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح پہلی، دوسری، تیسری، دسویں، بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی ہے۔ روحانی کلاسیں پڑھانے والے اساتذہ کہتے ہیں کہ ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک ایجنسی رکھی ہے۔ روحانی اعتبار سے جب دو روحیں آپس میں متصل ہوتی ہیں یا دو روحیں آپس میں گفتگو کرتی ہیں تو یہ ایجنسی مادری زبان میں Intereptکرتی ہے۔ اس زبان کو حضرت عبدالعزیز دباغؒ سریانی زبان کہتے ہیں۔

سوال: عظیمی صاحب! ہندو حضرات آواگون پر یقین رکھتے ہیں۔ کیا مرنے کے بعد روحیں دوسری شکل میں آ سکتی ہیں؟ کیا ہم مسلمان نیک و بد روحوں کے دنیا میں آنے پر یقین رکھ سکتے ہیں؟ اس کے بارے میں بتایئے، کیا درست ہے کیا غلط ہے؟ 

جواب: ہمیں سوچنا چاہئے کہ جس مذہب میں ایک کروڑ خداؤں کا تصور ہو وہ مذہب کیسے ہو سکتا ہے؟ مذہب سے مراد ہے کہ ایک ایسی ہستی پر ایمان لانا جو وحدہ لاشریک ہے۔ اگر وحدہ لاشریک ہستی پر اعتقاد اور یقین نہیں ہے، وحدہ لا شریک ہستی کے بعد آپ کسی بھی شئے کو پرستش اور عبادت کے لائق سمجھتے ہیں، اس کو مذہب ہیں کہتے۔

ہندو مذہب کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔

آواگون کے سلسلے میں ایک قصہ غوث علی شاہ قلندرؒ نے لکھا ہے۔ ایک لالہ جی تھے ان کا انتقال ہو گیا۔لالائین جی بہت پریشان ہوئیں۔ دسویں کے بعد ایک کتا دروازہ میں آ کر بیٹھ گیا۔ لالائین نے اس کو روٹی کا ٹکڑا ڈال دیا۔ کتا بہت وفادار جانور ہے۔ اگر کوئی اسے روٹی ڈال دے تو وہاں سے جاتا نہیں ہے۔ بچوں کو اعتراض ہوا۔ اماں تم نے یہ کیا کتے کو بٹھا دیادروازے میں۔ ماں نے کہا۔ نہیں بیٹا! پڑا رہنے دو۔ بے زبان جانور ہے۔ بچا کچا روٹی کا ٹکڑا ڈال دیتے ہیں یہ کھا لیتا ہے۔ ایک دن بڑا بیٹا باہر سے آیا اور اس کا پیر کتے کی دُم پر پڑ گیا۔ کتے نے بھونکنا شروع کر دیا۔ بیٹے نے اسے مارنا شروع کر دیا اور کہا نکل یہاں سے۔ ماں بے قرار ہو کر بھاگتی ہوئی آئی۔ بیٹا! اسے نہ مار، تیرے باپ کے کرم ہی ایسے تھے۔

اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ یہاں جو نیک اعمال کرو گے اس کی جزا ملے گی اور جو لوگ نیک کام نہیں کرتے تو اس کی سزا انہیں ملے گی۔ ہمیں یہاں رہتے ہوئے اس بات کی تیاری کرنی چاہئے کہ مرنے کے بعد کی زندگی ہمارے لئے اچھی ہو اور ہم وہاں کی تکالیف اور پریشانیوں سے محفوظ رہیں۔ (آمین)

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا مکافات عمل کی جگہ ہے۔ اچھائی کا بدلہ اللہ تعالیٰ اچھا دیتے ہیں اور برائی کا بدلہ برا ہوتا ہے۔

سوال: روحانی لوگ قلبی نفسیات کو اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن میڈیکل سائنس دماغ کو انسانی جسم کا کنٹرولر کہتی ہے۔ آپ بتایئے قلب کی حقیقت کیا ہے اور دماغ کی حقیقت کیا ہے؟ 

جواب: میڈیکل سائنس کیا کہتی ہے اس کا مجھے زیادہ علم نہیں ہے کیونکہ میں نے میڈیکل سائنس پڑھی نہیں ہے۔ اتنی بات سب جانتے ہیں کہ آدمی اگر Comaمیں چلا جائے یعنی اس کا Mindمعطل ہو جائے تو وہ جیتا رہتا ہے لیکن اگر اس کا Heart Failureہو جائے تو آدمی مر جاتا ہے۔ اب آپ خود بتائیں اہمیت Heartکی ہے یا Mindکی ہے؟ Comaمیں آدمی بیس بیس سال پڑا رہتا ہے۔ Heart Failureمیں وہ ایک سیکنڈ زندہ نہیں رہتا۔

سوال: ہم سب خواب دیکھتے ہیں۔ خواب اور بیداری کا تجزیہ فرمایئے۔ ہم خواب میں جب سفر کرتے ہیں تو کیا۔۔۔۔۔۔ہماری روح سفر کرتی ہے؟

جواب: عام انسانی زندگی میں اگر روح اور جسم کے رشتے کو تلاش کیا جائے تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ دنیا میں کوئی آدمی بھی ایسا نہیں ہے جس نے کبھی کوئی خواب نہ دیکھا ہو۔ طب قدیم اور طب جدید کہتی ہے اگر کسی آدمی نے کبھی کوئی خواب نہیں دیکھا تو وہ بیمار ہے۔ جب انسان سوتا ہے اور خواب دیکھتا ہے تو اس کے اندر سے ایک اور انسان نکلتا ہے۔ اگر وہ خاتون ہے تو خاتون اندر سے نکلتی ہے اور اگر وہ مرد ہے تو مرد نکلتا ہے۔ گھومتا ہے، پھرتا ہے، متاثر ہوتا ہے اور واپس جسم میں آ جاتا ہے۔

روح کا ایک طریقہ یہ ہے کہ روح جسم کے رشتے کو قائم رکھتے ہوئے جسم سے رشتہ عارضی طور پر توڑتی ہے۔ اس کو ہم نیند کہتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ روح جسم سے رشتہ توڑ لیتی ہے۔ اس کو ہم موت کہتے ہیں۔ خواب نصف موت ہے۔ جب رح اس جسم سے اپنا رشتہ عارضی توڑ کر کہکشانی نظاموں کا سفر کرتی ہے اس کا رشتہ جسم کے ساتھ قائم رہتا ہے اور جب موت کا وقت آتا ہے تو روح جسم سے اپنا رشتہ بالکل منقطع کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جسم سے روح کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے تو سانس کی آمد و شد ختم ہو جاتی ہے اور نیند میں سانس کی آمد و شد جاری رہتی ہے۔ آدمی جب سوتا ہے تقریباً مردے کی طرح ہوتا ہے لیکن اس کا سانس آتا جاتا رہتا ہے۔ اس کے اندر زندگی کے ضروری تقاضے جسم پورا کرتا ہے۔

زندگی آکسیجن کے بغیر قائم نہیں رہتی۔ جب آدمی سو جاتا ہے اس کے اندر آکسیجن برقرار رہتی ہے۔

روحانی لوگ تشریح کرتے ہیں کہ آکسیجن زندگی کا ایک ذریعہ ہے، آکسیجن زندگی نہیں ہے۔ جب آکسیجن اندر جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے نظام کے تحت ایک Chipلگا ہوا ہے۔ اس Chipسے جب آکسیجن ٹکراتی ہے تو اسپارکنگ(Sparking) ہوتی ہے۔ آکسیجن جلتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ بنتی ہے۔ یعنی انسانی زندگی کا دارومدار کاربن ڈائی آکسائیڈ پر ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں دخان کہا ہے۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے دخان سے کہا کہ۔۔۔۔۔۔تو داخل ہو جا، انسان کے اندر خوشی سے یا زبردستی۔ دخان نے کہا۔ میں آپ کا فرمانبردار ہوں، خوشی سے داخل ہوتا ہوں۔

جب انسان خواب دیکھتا ہے تو آکسیجن کے جلنے کا عمل برقرار رہتا ہے اور جب انسان مر جاتا ہے تو آکسیجن جلنے کا عمل ساقط ہو جاتا ہے۔ انسان جب سوتا ہے، ظاہری حواس ختم ہو جاتے ہیں۔ نہ وہ سن سکتا ہے، نہ وہ دیکھ سکتا ہے، نہ وہ بول سکتا ہے، نہ وہ محسوس کر سکتا ہے۔ کئی دفعہ اتنی گہری نیند ہوتی ہے کہ ڈھول بھی بجتا رہے تو آدمی کو پتہ نہیں چلتا۔ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے دو صلاحیتیں رکھی ہیں۔ ایک صلاحیت یہ ہے کہ وہ پابند ہے اور دوسری صلاحیت یہ ہے کہ وہ آزاد ہے اگر وہ اس صلاحیت کو استعمال کرنا سیکھ لے تو غیب کی دنیا میں داخل ہو سکتا ہے۔

سوال: میرا سوال یہ ہے کہ بنیادی طور پر وہ کون سے اصول ہیں جن کے ذریعے روحانی ارتقا کی منازل طے کی جا سکتی ہیں؟ 

جواب: بہت اچھا سوال ہے۔ شکریہ۔ دل خوش ہوا۔ کسی بات کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کی مبادیات پر تفکر کیا جائے،اصول و قواعد پر غور و فکر کیا جائے۔ Physical Bodyاور Real Bodyدونوں انسان کے ساتھ ساتھ ہیں۔ روحانی دنیا میں داخل ہونے کے لئے ہمیں روح کا سہارا لینا ہو گا۔ جب ہم روح کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں تو ہمیں بہت پیچھے ماضی میں جانا پڑتا ہے۔

ازل ماضی ہے۔ ازل حال، مستقبل نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے کائنات کو تخلیق کرنے کا ارادہ فرمایا تو “کُن” فرمایا۔ جب اللہ کسی چیز کو بنانے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے “ہو جا” اور وہ ہو جاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے “کُن” کہا۔ ساری کائنات تخلیق ہو گئی۔

اللہ تعالیٰ نے “کُن” کہا۔ روحیں وجود میں آ گئیں تو ایک عالم بن گیا، جس کو ہم عالم ارواح کہتے ہیں۔ روحوں کو یہ پتا نہیں تھا کہ ہم کون ہیں، کہاں ہیں، کس طرح ہیں، کس نے ہمیں بنایا، کیوں بنایا، ہماری پیدائش کا مقصد کیا ہے؟ روحیں عالم حیرت میں تھیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا وہ کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس جمود کو توڑنے کے لئے فرمایا۔۔۔۔۔۔الست بربکم۔۔۔۔۔۔میں تمہارا رب ہوں۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا۔ میں تمہارا رب ہوں تو روحوں کی سماعت یعنی سننے کے حواس سے اللہ تعالیٰ کی آواز ٹکرائی۔ جیسے ہی اللہ تعالیٰ کی آواز کانوں سے ٹکرائی کانوں کا مظاہرہ ہو گیا۔ یعنی روحیں اپنے کانوں سے واقف ہو گئیں۔

دیکھئے! میں یہاں بیٹھا ہوں میں آواز دیتا ہوں، پروفیسر جامی صاحب! آپ سوچیں گے کہ کہاں سے آواز آئی، کس نے مجھے پکارا؟ تو جب اللہ تعالیٰ کی آواز روحوں نے سنی تو روحیں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئیں۔ جیسے ہی روحیں باری تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئیں تو روحوں کو اللہ تعالیٰ کا ادراک ہوا۔ روحوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو بصارت عمل میں آ گئی۔ اب روحوں نے دیکھا اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں میں تمہارا رب ہوں۔ 

روحوں نے۔۔۔۔۔۔قالو بلیٰ۔۔۔۔۔۔کہا۔ جی ہاں آپ ہمارے رب ہیں۔ جیسے ہی روحوں نے کہا۔ ان میں قوت نطق(گویائی) آ گئی یعنی بولنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ ساتھ ساتھ قوت فیصلہ پیدا ہوئی کہ روحوں نے یہ فیصلہ قبول کر لیا کہ اللہ ہمارا رب ہے۔

اس کا مفہوم یہ ہوا کہ اجتماعی طور پر اور انفرادی طور پر “روح” اللہ کو دیکھ چکی ہے۔ ہماری روح ازل میں اللہ کی آواز سن چکی ہے۔ ہماری روح نے فیصلہ کر کے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ جی ہاں ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔ اب جب ہم انسان کی تخلیق کا تذکرہ کرتے ہیں یا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر دو باتیں ہوتی ہیں۔

۱۔ مادی جسم

۲۔ روحانی جسم

روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے اللہ کی آواز سن چکی ہے۔ اگر ہم مادی جسم سے آزاد ہو کر یا جسمانی پردے کے اندر داخل ہو کر روح کا تعارف حاصل کر لیں تو ازل میں داخل ہو سکتے ہیں۔

رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔۔۔۔۔۔

جس نے اپنے نفس(روح) کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔

جب آپ اپنی اصل یعنی اپنی روح سے واقف ہو جائیں گے تو روح اللہ کو پہلے ہی دیکھ چکی ہے۔ آپ بھی اللہ کو دیکھ لیں گے۔

آج کے دور میں سائنس کا بڑا غلغلہ ہے۔ سائنس کی ترقیاں بھی ہمارے سامنے اتنی تیزی سے آ رہی ہیں کہ انسان کی عقل حیران ہے۔

جب سائنٹسٹ مسلسل کسی ایک نقطے پر غور کرتا ہے، کسی نقطے پر ذہن مرکوز کرتا ہے، مسلسل ایک ہی نقطے پر سوچتا رہتا ہے۔ اس کی سوچ جب گہری ہو جاتی ہے تو اس کے اندر کا علم اسے بتاتا ہے کہ ہوائی جہاز اس طرح بنتا ہے، ایٹم اس طرح بنتا ہے۔ ایٹم کی جو Theoryانسان کے پاس آئی تو اس کا یہ ظاہری علم نہیں تھا۔ یہ باطنی علم ہے۔ اگر ایٹم بم بنانا ظاہری علم ہوتا تو ہر آدمی جو غور و فکر سے عاری ہے وہ بھی ایٹم بم بنا لیتا۔

مسلمانوں کی ذلت اور رسوائی کا سبب ہی یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے اسلاف کے تفکر کو، اپنے اسلاف کی ریسرچ کو، اپنے اسلاف کی ایجادات کو نظر انداز کر کے سطحی سوچ کو اپنا لیا ہے اور قوم اجتماعی سوچ نہ ہونے کے سبب دیو بندی، بریلوی، شیعہ، سنی وغیرہ۔ فرقوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ جو قرآن کے حکم کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“اور اللہ کی رسی کو متحد ہو کر مضبوطی سے پکڑ لو۔ تفرقہ نہ ڈالو۔”

اس وقت یہ صورت ہے کہ مسلمان فرقوں سے پہچانا جاتا ہے۔ جب سے مسلمانوں نے تفکر چھوڑا ہے اور اپنے اسلاف کی اجتماعی روایات سے منہ موڑ لیا ہے۔ مسلمانوں نے اپنے وجود کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ اگر مسلمان قوم نے اپنے بزرگوں اور اپنے اسلاف کی روایات کو نہیں اپنایا، قرآن کریم میں تفکر نہیں کیا تو یہ قوم مزید ذلیل و خوار ہو گی اور اس پر مزید مصیبتیں نازل ہوں گی۔ یہ اللہ کا قانون ہے۔

“جو قوم اپنی حالت نہیں بدلتی اللہ تعالیٰ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔”

سوال: روحانیت میں مراقبہ کی بڑی اہمیت ہے۔ درخواست ہے کہ ہمیں مراقبہ کے بارے میں بتائیں کہ ہم مراقبہ کس طرح کریں اور اس کے کیا فوائد ہیں؟ 

جواب: روحانی علوم میں پہلی کلاس مراقبہ ہے۔ مراقبہ یہ ہے کہ اپنے ذہن کو ایک نقطے پر مرکوز کرنے کے لئے Concentrationکیا جائے۔ اپنی ذات کو تلاش کرو، اپنا انا کا کھوج لگاؤ۔ ان عوامل کو تلاش کرو جن عوامل کی بنیاد پر آپ کی زندگی قائم ہے۔

بتایئے! آپ کھانا کیوں کھاتے ہیں؟

کھانا اس لئے کھاتے ہیں کہ بھوک لگتی ہے۔ بھوک کو کیا آپ انفارمیشن نہیں کہہ سکتے؟ آپ کو ایک اطلاع ملی کہ جسم کو کھانے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ اس اطلاع کو قبول نہیں کرتے تو کمزوی ہوتی ہے، چکر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد ہم ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ 

بھوک ایک انفارمیشن ہے۔

میرا آپ سے سوال ہے کہ بھوک کی انفارمیشن کیا ہے؟ کوئی اسٹوڈنٹ اس انفارمیشن کی تشریح کر سکتا ہے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ انفارمیشن کہاں سے آتی ہے؟

جواب: کھانے کی اطلاع ہمیں روح نے دی۔

انفارمیشن براہ راست روح سے آئی ہے۔

پانی پینے کا تقاضہ کہاں سے آیا؟

روح سے۔۔۔۔۔۔

میرا سوال ہے کہ آپ کو پتہ ہے روح کیا ہے؟

کبھی دیکھا ہے روح کو؟

کبھی روح کے بارے میں سوچ بچار کی ہے؟

کبھی آپ نے یہ سوچا ہے آدمی مر کیوں جاتا ہے؟

اور جب مر جاتا ہے تو اس کے ہاتھ، پیر، کان، آنکھ، ناک، دماغ، ٹانگیں، دل، پھیپھڑے، گردے سب موجود ہونے کے باوجود وہ بے حرکت کیوں ہو جاتے ہیں؟

دیکھئے! ہمارا مشاہدہ ہے کہ جب جسم سے روح نکل جاتی ہے تو جسمانی تقاضے ختم ہو جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہم نے نقل کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ لیکن ہمارے اسلاف، ہمارے بزرگ، ہمارے صحابہ کرامؓ، ہمارے بزرگ تابعین اور تبع تابعین، اس بات کو جانتے تھے کہ جسم روح کا لباس ہے۔ جسم روح کا میڈیم ہے۔ روح جسم کو میڈیم بنا لیتی ہے۔ ہمارے بزرگوں کو روحانی علوم حاصل تھے۔ لہٰذا انہوں نے اپنا کھوج لگایا۔

اس سے بڑا بے وقوف آدمی دنیا میں کوئی نہیں جو اصل اور نقل میں فرق نہ کرے۔

روح کا سمجھنا اتنا مشکل مسئلہ نہیں ہے۔ مشکل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی اصل سے واقف نہیں ہونا چاہتے۔ دنیاوی علوم سیکھنے کے لئے ہم پچیس سال تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ لیکن اپنی اصل سے واقف ہونے کے لئے ہمارے پاس پچیس دن بھی نہیں ہیں۔ یہی وہ بدنصیبی ہے جس کی وجہ سے مسلمان ساری دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔

اگر ہم اپنی اندرونی واردات و کیفیات سے واقف ہونے کے لئے، اپنی روح کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لئے اپنے اندر کا کھوج لگائیں تو بہت آسانی سے روح کا ادراک ہو جائے گا۔

سوال: السلام علیکم! میرا سوال یہ ہے کیا میں اپنی روح سے رابطہ کر سکتی ہوں؟ 

جواب: میری والدہ صاحبہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ اللہ انہیں جنت نصیب کرے۔ مجھے یاد آتی ہیں، اماں میری رہنمائی کرتی ہیں۔ جب بھی مجھے کوئی پریشانی ہوتی ہے، میں خواب میں اماں کو دیکھتا ہوں وہ میری نگرانی کرتی ہیں۔ جب میں کچھ گڑ بڑ کرتا ہوں تو وہ مجھے گھورتی ہیں۔ اماں کی روح کے ساتھ میرا رابطہ ہے۔

آپ خواب میں اپنے کسی مرحوم بزرگ کو دیکھتے ہیں تو دراصل ان کی روح سے رابطہ ہوتا ہے۔ جب خواب میں آپ کا روح سے رابطہ ہو سکتا ہے تو بیداری میں اگر آپ مشق کر لیں تو بیداری میں بھی روح سے رابطہ ہو سکتا ہے۔

سوال: محترم عظیمی صاحب! خواب میں، ایک آدمی پانچ منٹ سوتا ہے اور خواب دیکھتا ہے۔ خواب میں گھنٹوں میں گزرنے والا وقت، منٹوں میں گزر جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پانچ منٹ میں پانچ گھنٹے کیسے گزر جاتے ہیں؟ 

جواب: یہ سوال زمان و مکان کے بارے میں ہے۔ ہمارا شعور زمان و مکان (Time & Space) کا پابند ہے۔ لیکن جب آدمی خواب دیکھتا ہے تو وہ شعوری حواس سے آزاد ہو جاتا ہے۔ شعوری حواس سے آزاد ہونے کا مطلب بے خبر ہو جانا ہے۔ بیداری کے حواس عارضی طور پر معطل ہو جاتے ہیں۔ جب آدمی شعوری حواس سے نکل کر لاشعوری حواس میں داخل ہوتا ہے تو حواس کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔ اس لئے پانچ منٹ کا وقفہ کئی گھنٹوں یا کئی دن کے برابر ہو جاتا ہے۔ خواب کا مطلب ہے شعوری حواس سے نکل کر لاشعوری حواس میں داخل ہونا۔

بیداری میں زمان و مکان کا غلبہ ہوتا ہے اور خواب میں ہمارے اوپر زمان و مکان کا غلبہ ٹوٹ جاتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہو جاتا ہے۔

مرشد کریم قلندر بابا اولیاءؒ کتاب لوح و قلم میں فرماتے ہیں:

بیداری کی طرح نیند میں بھی انسان کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے لیکن وہ جو کچھ کرتا ہے اس سے واقف نہیں ہوتا۔ صرف خواب کی حالت ایسی ہے کہ جس کا اسے علم ہوتا ہے یعنی وہ اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ وہ سو رہا ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ ہم خواب کے علاوہ نیند کی باقی حرکات سے کس طرح مطلع ہوں۔ انسان کی ذات نیند میں جو حرکات کرتی ہے، اگر حافظہ کسی طرح اس لائق ہو جائے کہ اس کو یاد رکھ سکے تو ہم باقاعدگی سے اس کا ایک ریکارڈ رکھ سکتے ہیں۔ حافظہ کسی نقش کو اس وقت یاد رکھتا ہے، جب وہ گہرا ہو۔ یہ مشاہدہ ہے کہ بیداری کی حالت میں ہم جس چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ہم اسے یاد رکھتے ہیں اور جس چیز کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اسے بھول جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو روحانی علوم سیکھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

السلام علیکم ورحمتہ اللہ



خطبات ملتان

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔ احسان وتصوف کے حوالے سے ڈاکٹرچوہدری غلام مصطفیٰ ، V.C صاحب نے عظیمی صاحب کوتصوف اورسیرت طیبہ پر لیکچردینے کےلئے یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ محترم عظیمی صاحب نے ہمیں عزت واحترام سے نوازا اورکراچی سے ملتان تشریف لائے اورلیکچرDeliverکئے۔ 

ان لیکچرز کی سیریز کے پہلے سیمینارمیں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی  کے وائس چانسلرنے خواجہ صاحب کی خدمات کو سراہا اوراعلان کیا کہ عظیمی صاحب اس شعبہ کے فیکلٹی ممبر ہیں اورہم ان سے علمی اورروحانی استفادہ کرتے رہیں گے ۔

عظیمی صاحب نے بہاءالدین زکریایونیورسٹی ملتان اورمضافات ملتان میں جو علمی وروحانی لیکچرزدیئے انہیں خطاب ملتان کی شکل میں شائع کیا گیا ہے ۔عظیمی صاحب نے اپنے ان خطبات کی بنیادقرآن وسنت کو قراردیا ہے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر110میں واضح کیا ہے "پس جوشخص اپنے رب سے ملاقات کا آرزومند ہواسے لازم ہے کہ وہ اعمال صالحہ کرے اوراپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے "