Topics

رحمت للعالمینﷺ

قرآن پاک میں ارشاد ہے

o سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے

رب کی تشریح یہ ہے کہ ایسی ہستی جو عالمین کو زندہ رکھنے کیلئے وسائل پیدا کرتی ہے۔

o نہایت مہربان اور رحم کرنے والا

ان وسائل کی تقسیم ایثار، محبت اور رحمت کے ساتھ کی جاتی ہے

o یوم جزا کا مالک

ان وسائل کی تقسیم میں عدل و انصاف اور توازن برقرار رہتا ہے۔

ربوبیت پر غور کیا جائے تو وسائل کی پیدائش سامنے آتی ہے کیونکہ انسان اور زمین کے اوپر موجود تمام مخلوقات وسائل کی محتاج ہیں اگر مخلوق کے لئے وسائل مہیا نہ کئے جائیں تو مخلوق کی زندگی موت میں تبدیل ہو جائے۔

وسائل سے مراد زمین، پانی، آسمان، بارش، ہوا، دھوپ، پھل، اناج، فضا، مختلف گیسز، معدنیات، جمادات، نباتات ہیں۔ آکسیجن یا ہوا کے بغیر نہ تو زندگی کا تصور قائم ہوتا ہے اور نہ ہی زندگی قائم رہ سکتی ہے۔

بے شک سب تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے عالمین کے لئے وسائل پیدا کئے اور صفت رحمت کے ساتھ ان وسائل کو عدل و توازن کے ساتھ قائم رکھا ہوا ہے۔ نوع انسانی اور زمین پر آباد تمام مخلوقات ان وسائل سے فیض یاب ہوتی ہیں۔ ان وسائل کے بغیر زندگی کا تصور قائم نہیں ہوتا۔

انسانی زندگی کی بقا اور تقاضوں کی تکمیل کیلئے جو وسائل ہمیں میسر ہیں ان وسائل کی ایک خاص تقسیم ہے۔ مثلاً ہم ہوا استعمال کرتے ہیں اگر ہوا میں توازن نہ رہے اور ہوا کے طوفان آ جائیں تو ہماری زندگی تہس نہس ہو جائے گی۔ ہوا میں اگر آکسیجن کی مقدار کم و بیش ہو جائے تو ہم زندہ نہیں رہیں گے۔ اسی طرح اگر پانی کی تقسیم میں توازن برقرار نہ رہے تو پانی کا طوفان آ جائے گا، سیلاب میں انسان کی زندگی قائم نہیں رہتی بلکہ دنیا تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔ پتہ چلا کہ وسائل کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان میں توازن ہو تا کہ زندگی تباہ و برباد نہ ہو اور وسائل مخلوق کے لئے راحت و عافیت کا سبب بنیں۔ مخلوق کو آرام و آسائش مہیا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان وسائل کو رحمت کے ساتھ تقسیم کیا جائے۔

ہر مخلوق وسائل کی محتاج ہے۔

صرف اللہ وسائل کی احتیاج سے ماوراء ہے۔

رب العالمین نے جب کائنات بنائی اور اس کائنات کیلئے وسائل پیدا کئے تو پھر رب کائنات نے یہ چاہا کہ وسائل تقسیم کرنے والی ہستی مخلوق میں سے منتخب کی جائے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نہ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں۔ نہ انہیں گھر کی ضرورت ہے، نہ ان کا کوئی باپ ہے، نہ ان کی کوئی ماں ہے، نہ ان کی کوئی اولاد ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے الحمدللہ رب العالمین کی صفت بیان فرمائی ہے جو عالمین کیلئے وسائل پیدا کرتا ہے۔ عالمین وسائل کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے۔ وسائل کی احتیاج تغیر کی نشانی ہے۔ اگر وسائل کی احتیاج ختم ہو جائے تو تغیر بھی ختم ہو جائے اور کائنات ختم ہو جائے۔ وسائل کی تقسیم میں یہ بات بنیاد ہے کہ وسائل کی تقسیم وہ کرے جو وسائل کی احتیاج سے آشنائی رکھتا ہو اور جو وسائل کی ضرورت، حصول و استعمال کی صفات رکھتا ہو۔ وسائل کی تقسیم کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی ہستی پیدا فرمائی جس کے اندر وسائل کی حاجت رکھ دی اور جس کے اندر تقاضے پیدا کر دیئے کہ وہ وسائل کو استعمال بھی کرے۔

اللہ تعالیٰ نے وسائل تقسیم کرنے والی اس ہستی کیلئے فرمایا!

و ما ارسلنک الا رحمت للعالمین

اللہ نے اپنے نُور  سے کائنات کے نقش و نگار بنائے، ضروریات اور احتیاج پیدا کیں اور وسائل پیدا فرمائے۔ ان وسائل کی تقسیم کیلئے آپﷺ کو رحمت للعالمین بنایا اور اپنے محبوب بندے کے اندر وسائل کی احتیاج رکھی کیونکہ اللہ تعالیٰ ۔۔۔۔۔۔خالق اکبر کسی قسم کی احتیاج نہیں رکھتے۔

o اللہ الصمد

اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ احتیاج سے ماوراء ہے۔

اللہ تعالیٰ رحمٰن و رحیم ہیں

اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہیں،

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو رحمت کے ساتھ بنایا۔ اس نے مخلوق کو پیار، محبت اور چاہت کے ساتھ تخلیق کیا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

’’اے محبوبﷺ ہم نے آپ کو عالمین کے لئے سراپا بنایا ہے اور آپﷺ کے ساتھ وسائل تقسیم فرمائیں۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے نظام کائنات میں رسول اللہﷺ کو اپنے اور مخلوق کے درمیان واسطہ بنایا۔

رسول اللہﷺ خاتم النبیین ہیں اور آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ مسلمان خوش نصیب ہیں کہ مسلمانوں کو جو در ملا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے بڑی ہستی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کا در ہے۔

اللہ تعالیٰ رب العالمین ہیں اس نسبت سے کوئی بندہ رب تو نہیں ہو سکتا۔ رسول اللہﷺ رحمت للعالمین ہیں لہٰذا اس نسبت سے جب مسلمان رسول اللہﷺ پر ایمان لے آتا ہے اور کلمہ پڑھ کر اپنی نسبت رسول اللہﷺ سے قائم کر لیتا ہے تو مسلمان کو آپﷺ کی ’نسبت رحمت‘ منتقل ہو جاتی ہے۔ ہر مسلمان چونکہ رسول اللہﷺ سے ایک روحانی، قلبی اور ظاہری رشتہ رکھتا ہے اس لئے اس کے اندر یہ صفات منتقل ہو جاتی ہیں۔ جس طرح رسول اللہﷺ عالمین کے لئے رحمت ہیں اسی طرح ہر مسلمان کو پوری نوع انسانی کیلئے رحمت کا ایک چلتا پھرتا کردار ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو کافر کیلئے بھی رحمت بنایا ہے تا کہ وہ کافروں کے ساتھ اخلاق حسنہ سے پیش آئے اور کافر مسلمان کے اخلاق حسنہ اور کردار دیکھ کر ایمان قبول کریں جبکہ صورتحال یہ ہے کہ آج مسلمان خود مسلمانوں کیلئے زحمت کا باعث بن گیا ہے۔

مقام فکر ہے کہ

کیا رب العالمین اور رحمت للعالمین نے تفرقہ کی اجازت دی ہے؟

عالمین سے کیا مراد ہے؟

اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے رب العالمین اور

رسول اللہﷺ کے لئے رحمت للعالمین فرمایا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے لئے رحمت المسلمین نہیں فرمایا

کیا حضّور پاکﷺ کافروں کے لئے رحمت نہیں ہیں؟

رسول اللہﷺ کی تعلیمات یہ ہیں

کہ کافر کو کافر نہ کہو۔

رسول اللہﷺ نے کافر و غیر مسلم کے حقوق متعین فرمائے ہیں۔ یہ سوال کہ اگر رسول اللہﷺ رحمت للعالمین ہیں، رحمت المسلمین نہیں تو مسلمان اور غیر مسلم میں اور اسلام اور کفر میں کیا فرق ہوا؟ فرق یہ ہے کہ جب بندہ مسلمان ہو جاتا ہے تو اسے رحمت للعالمین کی صفت رحمت منتقل ہو جاتی ہے اور کافر کو یہ صفت منتقل نہیں ہوتی۔ مسلمان اگر اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے ہی رحمت نہیں ہے تو اسے سوائے محرومی اور بدنصیبی کے کیا ملے گا؟ رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعے سے یہ بنیادی بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضّور پاکﷺ رحمت للعالمین ہیں۔

آپﷺ کے ماننے والوں کو حضّور کی نسبت ’’رحمت‘‘ منتقل ہو جاتی ہے۔

جب انسان کے اندر رحمت ہوتی ہے تو اس کے اندر اخلاق حسنہ پیدا ہو جاتے ہیں، غصہ ختم ہو جاتا ہے۔ نفرت سے پاک ہو جاتا ہے حسد، کینہ، بغض اور غرور و تکبر کی جگہ محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ رسول اللہﷺ کی تعلیمات ہیں اور یہی آپﷺ کا اسوہ حسنہ ہے۔ اس اسوہ حسنہ کی بنیاد اللہ کی قربت اور نسبت ہے۔

رسول اللہﷺ ہمیشہ اللہ کی معرفت سوچتے ہیں۔ ہر چیز سے پہلے ذہن میں اللہ تعالیٰ آتا ہے اور پھر شئے آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ

ہم رسول اللہﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کریں اور میرا خیال ہے کہ یہ ایسا مشکل کام نہیں ہے کہ جو ہم نہ کر سکیں۔

امت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے نبیﷺ کے طرز فکر کی حامل ہوتی ہے۔ ہم سب کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ

ہمارے اندر رحمت ہے یا غصہ ہے؟

محاسبہ کرنے کے بعد نظر آتا ہے کہ مسلمان میں غصہ، نفرت اور تکبر تو بہت آ گیا ہے لیکن رحمت کہیں نظر نہیں آتی اور مسلمانوں کے اندر پانچ فی صد بھی ایسی خوبیاں نہیں ملتی جنہیں رسول اللہﷺ کی نسبت دی جا سکے بلکہ سچی بات تو یہ ہے اور دل یہ کہہ رہا ہے کہ مسلمان ایک فی صد بھی اسوہء رسولﷺ پر کاربند نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ غصہ کرنے والے افراد کے بارے میں فرماتے ہیں

o جو لوگ غصہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت نہیں کرتا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے کہ جب آپؓ نے ایک یہودی پہلوان کو کشتی میں گرا کر قتل کرنا چاہا تو اس نے آپؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ حضرت علیؓ اسے قتل کرنے کی بجائے چھوڑ کر ایک طرف ہو گئے۔ یہودی نے کہا کہ اب تو آپ کو زیادہ غصہ آنا چاہئے تھا۔ آپ نے فرمایا! نہیں میں تجھ سے اپنے لئے نہیں لڑ رہا تھا بلکہ میں تو اللہ تعالیٰ کے لئے لڑ رہا تھا۔ جیسے ہی تو نے مجھ پر تھوکا مجھے غصہ آ گیا۔ اب میں تجھے ہلاک کرتا ہوں تو اس میں میری ذاتی غرض شامل ہو گی۔ لہٰذا میں نے تجھے چھوڑ دیا۔

غصہ، نفرت اور کبر سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ رسول اللہﷺ کی عملی زندگی اسی سے عبارت ہے۔ آپﷺ نے کبھی کسی پر غصہ نہیں کیا۔ بلکہ سب کو معاف فرمایا ہے۔ اپنے خاندان کے جھگڑے، قرضے حتیٰ کہ قتل تک معاف فرمائے۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو رحمت للعالمین فرمایا ہے۔ حضرت امیر معاویہ کی والدہ اور یزید کی دادی  ہندہ نے حضورﷺ کے چچا کا کلیجہ چبایا اور بے حرمتی کی لیکن جب وہ مسلمان ہوگئی تو آپﷺ نے اسے بھی معاف کر دیا۔

سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طیبہﷺ کا عملی مظاہرہ ہمارے سامنے ہے۔ حضّور پاکﷺ سراپا رحمت تھے۔ ہمیں بھی حضّور پاکﷺ کی طرز فکر پر عمل کرتے ہوئے اپنے بھائیوں، بچوں اور خاندان کے لئے رحمت بن کر رہنا چاہئے۔ جب ہم رحمت بن کر جئیں گے تو ہماری تمام مشکلات، پریشانیاں اور بے سکونی کی کیفیات ختم ہو جائیں گی۔


اللہ کے محبوب

خواجہ شمس الدین عظیمی

کتاب اللہ کے محبوبﷺمیں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام پر اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو پر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالی، خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ارشادات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ارشادات پر تفکر سے انسان کے اندر موجود غیب کے عالمین اس طرح روشن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام اور امانت الٰہی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر اور مشاہدہ سے انسانی ذہن اور علم کو وسعت ملتی ہے اور وہ زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ صدیوں پر محیط عالمین کا سفر، چند لمحات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس شعوری ارتقاء سے انسان کی سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر محیط، اپنے من میں موجود، اپنی رگ جاں سے قریب ہستی۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔

مرشد کریم کے ذریعے سالک کا تعلق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم ہو جاتا ہے اور بے شک سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ذات اکبر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے قائم ہے۔