Topics

دوسری بین الاقوامی رُوحانی کانفرنس سے خطاب

۱۱ جنوری ۱۹۹۱؁ء بروز جمعۃ المبارک صبح ۱۰ بجے سلسلۂِ عظیمیہؔ اور قلندر شعور فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والی دوسری بین الاقوامی رُوحانی کانفرنس مراقبہ ہال جامعہ عظیمیہؔ کاہنہ نَو، لاہور میں منعقد ہوئی۔ اس رُوحانی کانفرنس میں لاہور شہر کے علاوہ کراچی شہر سے مرشدِ کریم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے ہمراہ معزز مہمانانِ گرامی اور بڑی تعداد میں برادران ِ سلسلہ ِ عظیمیہؔ تشریف لائے جنہوں نے اہلِ لاہور کی اخوّت کے دِلی جذبات کو بہت پسند فرمایا۔ لندن سے سلسلۂِ عظیمیہ کی انچارج باجی سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمی (مرحومہ) اور ان کے شوہر عبد الحفیظ عظیمی صاحب اور ڈاکٹر ممتاز عظیمی صاحب بھی تشریف لائے۔ اس کے علاوہ سعودیہ عرب، ابو ظہبی سے بھی مہمانان تشریف لائے۔ نیز اَندرونِ ملک سے کراچی کے علاوہ، پشاور، آزاد کشمیر، راولپنڈی، جہلم، فیصل آباد، گوجرانوالہ، اوکاڑہ، ساہیوال، چنیوٹ، سیالکوٹ، نواب شاہ، حیدر آباداور پھالیہ سے کثیر تعداد میں خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ رُوحانی کانفرنس کے موقع پر ایک سو وینیئر بھی شائع کیا گیا جس میں سلسلہ کی خدمات کا بتایا گیا تھا۔ کانفرنس کے اختتام پر لاہور کے تاریخی مقامات کی سیر کا انتظام بھی کیا گیا تھا جس کو بہت سراہا گیا، اس کانفرنس میں جن حضرات نے مقالے پڑھے ان میں طاہر جلیل عظیمی صاحب، قاضی مقصود احمد عظیمیؔ صاحب، محمد ادریس عظیمیؔ صاحب، ڈاکٹر ممتاز ظفر عظیمیؔ، ڈاکٹر حکیم وقار یوسف عظیمیؔ صاحب اور محترمہ سیّدہ سعیدہ خاتون عظیمیؔ صاحبہ شامل ہیں۔ اس موقع پر مرشدِ کریم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی ایک کتاب”  کشکول “اور میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب کی کتاب” یارانِ طریقت “کی رُونمائی کی گئی۔ آخر میں میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب نے تمام مہمانانِ گرامی اور انتظامی اُمور کی کمیٹیوں کا شکریہ ادا کیا۔ جن کے توسّط سے یہ پروگرام کامیاب ہوا۔
مرشدِ کریم نے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا:
میری رُوحانی اولاد، بزرگو، دوستو، مَیں آپ کا انتہائی شکر گزار ہوں کہ آپ حضرات اس سردی میں اپنے گرم گرم کمروں کو چھوڑ کر اس کھلے میدان میں تشریف لائے۔ بلاشبہ میری سعادت کے ساتھ ساتھ آپ کی بھی سعادت ہے اس لئے کہ اس بیابان میں آپ کی تشریف آوری کا مقصد بجز اس کے کچھ نہیں کہ آپ کے دلوں میں اللہ کے رسول محمد ﷺ کی محبت ہے۔ اور اللہ کی ذات ہے اور آپ کے دل یہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں کہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے ماننے والے لوگ کیسے ہوتے ہیں۔ اور ان کی قربت سے ہمیں جو سکون حاصل ہوتا ہے وہ کیوں حاصل ہوتا ہے۔
آج کی نشست میں ماشاء اللہ اتنے سارے حضرات تشریف فرما ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابھی زمین بنجر نہیں ہوئی۔ زمین اچھی ہے صرف اس میں آبیاری کی ضرورت ہے۔ اگر زمین میں صحیح معنوں میں آبیاری کی جائے تو یہ زمین جو بنجر کہلاتی ہے بنجر نہیں رہتی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان قوم تو قوم ہی نہیں رہی، بات یہ نہیں ہے مسلمان قوم تو قوم ہے…. مسلمان قوم کو راستہ دکھانے والے وہ نہیں رہے جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھے۔ جیسے جیسے نبوت کا زمانہ دُور ہوتا چلاگیا…. ہمارے یہاں مذہب میں مصلحتیں شامل ہوتی رہیں اور مصلحتوں کی بنیاد پر مسلمان اپنے اسلاف کے ورثے سے محروم ہوتا چلا گیا ۔
بہر حال آپ حضرات تشریف لائے آپ کا بہت بہت شکریہ۔
میرے بچوں نے ابھی جو آپ کے سامنے مکالمے پڑھے اور تقریریں کیں، اُن تقاریر کو سن کر مجھے خوشی ہوئی اور آپ نے بھی یہ اندازہ کر لیا ہے اچھی طرح کہ اگر اللہ اور اللہ کے رسول اللہ ﷺ کے اعلان پر کوئی بندہ کتنا بھی تہی دامن ہو کتنا بھی کم علم ہو کتنا بھی کوتاہ عقل ہو اگر خلوصِ نیت کے ساتھ راستے پر چل کھڑا ہو تو شروع شروع میں اس کے ساتھ دشواریاں پیش آتی ہیں… لیکن اگر وہ اپنے ارادے کا اور عزم کا پکا ہے تو پھر اس کے ساتھ ایک قافلہ لگ جاتا ہے۔
اور آج آپ یہ دیکھ رہے ہیں کہ دس سال کی جدوجہد اور کوشش کا یہ نتیجہ ہے کہ اس قافلے میں اللہ تعالیٰ نے ایسے جواہرات پیدا کردیئے ہیں کہ وہ خود آگہی سے بھی آشنا ہو گئے ہیں اور خود آگہی کا دوسروں کو درس بھی دے سکتے ہیں۔
ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے…. تاریخ بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب نبوت کااعلان فرمایا تو کتنے لوگ تھے جو ان کو ماننے والے تھے….؟ چُھپ چُھپ کر تبلیغ کی جاتی تھی ۔ پھر ایک، ایک سے دو، دو سے تین، تین سے چار ہوئے۔ حضور پاک ﷺ کی دعوت یہ تھی کہ وہ…. اللہ کی مخلوق کو، قریشِ مکّہ کو، اہلِ مکّہ کو عذاب ناک زندگی سے محفوظ کرکے پر سکون زندگی میں داخل کرنا چاہتے تھے…. حضور ﷺ کا صرف یہی قصور تھا کہ…. حضور ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ بھائی جو تمہاری زندگی ہے… بت پرستی کی زندگی…. یہ عذاب ناک زندگی ہے۔ یہاں بھی عذاب ناک اور آخرت میں بھی عذاب ناک ۔ زندگی میں اللہ نے جو راستہ بتا دیا ہے… حکم دیا ہے کہ میں نے جو تمہیں راستہ دے دیا ہے…. یہ راستہ عذاب ناک نہیں ہے…. سکون کا راستہ ہے۔
انہوں نے وہ بات سنی اور سننے کے بعد کسی نے مجنوں کہا کسی نے دیوانہ کہا کسی نے جادوگر کہا۔ آپ یہ غور فرمائیں… انہیں کس بات کی سزا دی جارہی تھی؟ سزا اس بات کی دی جا رہی تھی کہ ایک خدا کا بندہ اٹھتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ بھائی جس راستے پر تم چل رہے ہو یہ عذاب کا راستہ ہے اس راستے کو چھوڑ دو۔ میں جس راستے کی نشاندہی کر رہا ہوں وہ مجھے اللہ نے بتایا ہے ۔ اس راستے پرا گر تم آجاؤگے تو عذاب ناک زندگی سے محفوظ ہوجاؤ گے۔ لوگوں کی عقل کا یہ عالَم ہے…. لوگوں کے اوپر شعور کا اتنا غلبہ ہے کہ لوگوں نے کہا کہ اچھا ایک آدمی اٹھا اور ہمیں سکون کے راستے پر ڈالنا چاہتا ہے….!!؟
انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ بندہ مخلص ہے، یہ بندہ محبت کرنے والا ہے، یہ بندہ مشفِق ہے، یہ بندہ ہم سے کوئی غرض اور لالچ بھی نہیں رکھتا، ہم سے کسی مالی مُنفِعَت کا بھی طلبگار نہیں، کسی چودھراہٹ کا بھی خواہش مند نہیں… لیکن انہوں نے حضور پاک ﷺ کو اس دعوت کے نتیجے میں اتنی سزا دی اور اتنا پریشان کیا کہ ان کا بائیکاٹ کر دیا۔ کھانا پینا ان کے اوپر بند کردیا۔ اور انتہا یہ کہ اذیت ناک پہلو کا سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ یہ کس بات کی سزا ہے۔ یہ اس بات کی سزا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ کی مخلوق کو عذاب سے بچانے کی دعوت دیتے تھے۔ اب غور فرمائیں کہ نوعِ انسانی کا شعور کتنا تاریک ہے کتنا کم ہے کہ اس کو یہ بھی اندازہ نہیں ہوا کہ ایک مخلص بندہ میرے لئے خلوصِ نیت کے ساتھ مجھے سیدھے راستے پر ڈالنا چاہ رہا ہے مجھے اس کی بات سننی چاہیئے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعوت کا اثر ہوا لیکن بہت کم ہوا۔ چند آدمی حضور پاک ﷺ سے مل گئے۔ گنے چنے تاریخ سبھی نے پڑھی ہے۔
اب اُن بندوں کا رسول اللہ ﷺ کی قربت میں ایک ایسا مزاج بنا، ایک ایسی اُن کے اَندر طرزِ فکر پیدا ہوئی کہ انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کی طرزِ فکر پر دعوت دینا شروع کردی۔ اُن کے راستے میں بھی لوگ حائل ہوئے۔ حضرت بلالؓ کی ہستی آپ لوگوں کے سامنے ہے۔ ان لوگوں کو بھی مارا پیٹا گیا، ان لوگوں کو بھی ریت پر ڈال کر گھسیٹا گیا ۔ اتنا مارا گیا کہ کھال پھٹ گئی اور جسم سے لہو اور چربی بہنے لگی۔ لیکن ان بندوں نے بھی اللہ کی دعوت کو نہیں چھوڑا۔ تکلیفیں برداشت کرتے رہے۔ اور اللہ کے پیغام کو عام کرتے رہے۔ اس لئے کہ ان کے اَندر رسول اللہ ﷺ کی وہی طرزِ فکر جا گُزیں ہوگئی تھی جس طرزِ فکر کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی دعوت دی… اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی…
اللہ کی وحدانیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پر سکون رہنے کی دعوت، اس دنیا میں بھی پر سکون رہنے کی دعوت اور مرنے کے بعد آخرت میں بھی پر سکون رہنے کی دعوت ۔
پھر ایساہوا کہ لوگوں کا اژدہام ہوگیا۔ بہت سارے لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے رسول اللہ ﷺ کو ایسے مل گئے کہ انہوں نے عجیب و غریب جانثاری کا ثبوت پیش کیا ۔ اور پھر اسلام پھیلتا چلا گیا۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد، پردہ فرمانے کے بعد ان کے دوست اٹھے انہوں نے اس مشن کو اپنے کندھوں پر اٹھالیا ۔ اور انہوں نے بھی اُنہی طرزوں میں کوششیں شروع کردیں، جن طرزوں میں رسول اللہ ﷺ نے کوشش فرمائی تھی۔ یہ بھی دیکھیں کہ اسلام کا غلبہ ہوا، فتوحات زیادہ ہوئیں…. جیسے جیسے مسلمان دنیاوی غرض میں مبتلا ہوتا چلا گیا۔ اُسی مناسب سے لوگوں کو اسلام میں ایسی ایسی چیزیں داخل کرنے کا موقع ملا کہ اسلام کا جو اصل چہرہ تھا وہ مصلحتوں کی نظر ہوگیا۔
اسلام میں بادشاہت آئی اگر بادشاہت اسلام میں جائز ہوتی تو قریش مکہ تو حضور پاک ﷺ سے خود ہی کہتے تھے کہ آپ ؐ یہ دعوت ِ دین چھوڑ دیں ہم آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیں گے…. لیکن بادشاہت اسلام میں داخل نہیں ہوئی۔ جب بادشاہت اسلام میں داخل ہوگئی تو بادشاہت کے تقاضے بھی…. جو بادشاہت کو قائم رکھنے کیلئے ضروری تھے … وہ بھی اسلام میں داخل ہوگئے… اور پھر ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہُوا…. اُنہیں پتا ہی نہیں چلا کہ اسلام کی جو بنیاد تھی وہ کدھر چلی گئی۔ اسلام کو کچھ اس طرح پیش کیا گیا کہ اسلام کی رُوح پردے میں چلی گئی اور اسلام کو ظاہر کھا گیا۔
آج کے دَور میں مسلمانوں کا جو حال ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ مسلمان عبادت کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، حج کرتے ہیں… لیکن وہ نمازیں مسلمان نہیں قائم کرتے جو ہمارے اسلاف قائم کرتے تھے…. حج کرتے ہیں…. اُن حجوں کا ہمیں وہ فائدہ نہیں پہنچتا جو ہمارے اسلاف کو فائدہ پہنچتا تھا…. اور جہاد تو اسلام میں سے نکل ہی گیا… جہاد کا تو کوئی تذکرہ ہی نہیں رہا۔ تو یہ بات ہوئی کہ اسلام میں بادشاہت آنے کے بعد اسلام کی رُوح جو ہے وہ پردے میں چلی گئی اور اسلام کا جو ظاہری رخ ہے وہ سامنے آ گیا۔ تو اس وقت ہماری جو پوزیشن ہے وہ یہ ہے کہ اسلام تو ہمارے پاس ہے…. وہی اسلام…. اسلام میں کوئی فرق نہیں پڑا…. جو رسول اللہ ﷺ نے اسلام کی بنیاد ڈالی تھی… اسلام وہی ہے۔
اگر حضور پاک ﷺ نے وحدانیت کی دعوت دی تھی تو وحدانیت کی دعوت آج بھی ہے۔ حضور پاک ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ گورے کو کالے پر فضیلت نہیں ہے اور کالے کو گورے پر فضیلت نہیں ہے۔ اللہ کے ہاں افضل وہ ہے جو متّقی ہے ۔ یہ بات آج بھی ہم زبان سے کہتے ہیں۔ اگر حضور پاک ﷺ کے زمانے میں پانچ وقت مسجد میں اذان ہو کر نماز ادا ہوتی تھی تو آج بھی تمام مساجد میں اذان بھی ہوتی ہے اور نماز بھی لوگ پڑھتے ہیں۔ اگر حضور علیہ الصلوۃ السّلام کے دَور میں پانچ سو آدمی حج کو آتے تھی تو آج کے دَور میں بیس بائیس لاکھ لوگ بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں۔ وہ پانچ سو آدمیوں کا طواف ساری دنیا کو لرزا دیتا تھا۔ اب بائیس لاکھ آدمیوں کا طواف جو ہے وہ غیر مسلموں کے اوپر اتنا بھی اثر نہیں کرتا جتنا ایک مچھر کے کاٹنے کا ہوتا ہے۔ اگر وہاں ایک آدمی اللہ اکبر کہتا تھا تو لوگ اللہ اکبر کے جواب میں نعرہ لگاتے تھے… تو دشمنوں کے دل دہل جاتے تھے…. عورتوں کا حمل ساقط ہوجاتا تھا۔ اور آج کتنا ہی آپ اللہ اکبر …. تکبیر کے نعرے لگاتے رہیں…. وہ بالکل ایک آواز ہے آواز جیسے فضا میں گم ہوگئی اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ حضور پاک ﷺ نے جو اسلام پیش کیا اس میں ظاہر اور باطن دونوں رخ تھے ۔ جسمانی تقاضوں کے ساتھ ساتھ رُوحانی تقاضے بھی مَوجود تھے ۔ اگر مادّیت کی ضرورت تھی تو مادّیت کی ضرورت کے ساتھ ساتھ مسلمان یہ بھی جانتا تھا کہ میری ایک بنیادی ضرورت اللہ کا نُور بھی ہے، اللہ کی تجلی بھی ہے۔
“اَللہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ’’ (سورۃ النّور – 35(
آج صورت یہ ہے کہ ہم اپنے جسمانی تقاضوں سے تو واقف ہیں… لیکن جِس رُوح نے… جس تجلی نے … أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ نُورِی…. کے تحت…. حضور پاک ﷺ کے جس نُور سے ہماری زندگی بخشی ہوئی ہے…. جس نُور سے ہمارے اَندر حرارت پیدا ہوتی ہے…. جس نُور سے ہماری زندگی میں حرکت ہے…. ہم اُس سے واقف نہیں ہیں۔
ہم واقف ہیں صرف مادّیت سے۔ ہم واقف ہیں صرف ظاہر سے ۔ باطن سے ہمارا رشتہ ٹوٹ گیا ہے۔ ظاہر سے ہمارا رشتہ اس طرح جُڑ گیا ہے کہ اگر کوئی آدمی اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ مسلمان تیرا کوئی باطن بھی ہے تو لوگ اس کے مقابلے میں کھڑے ہوجاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ کیا بات ہوئی باطن سے کیسے رشتہ ہوگیا۔ اگر تمہارا باطن سے رشتہ نہیں ہے…. تو جب تم مر جاتے ہو اور تمہارا جسم ایک لاش کی مانند ہوجاتا ہے تو تمہارے اَندر کوئی حرکت کیوں نہیں ہوتی ؟ آپ نے کبھی کسی لاش کے اَندر کسی مُردہ آدمی کے اَندر حرکت دیکھی ہے؟ کیا اس سے بڑی کوئی مثال ہوسکتی ہے دنیا میں…. جب ایک آدمی مرجاتا ہے تو اس کی تمام حرکات و سکنات ساقط ہوجاتی ہیں۔ وہ آدمی جو سوئی کے چبھنے سے چیخ اٹھتا ہے اس کے ایک ایک عضو کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں تو وہ سسکاری بھی نہیں بھر تا…. کیوں؟ اس لئے کہ مادّیت کو جس نُور نے، جس روشنی نے، جس رُوح نے سنبھالا ہوا تھا اس نُور نے، اس روشنی نے اس مادّی جسم سے اپنا رشتہ توڑلیا ہے۔
یہی صورت حال اسلام کی ہے۔ اسلام الگ چیز ہے ایمان الگ چیز ہے۔ اسلام ظاہری رخ ہے ظاہری جسم ہے…. ایمان باطنی رخ ہے باطنی جسم ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم کہتے ہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ ہاں تم مسلمان تو ہو… وَلَمَّا يَدْخُلِ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ …. (الحُجُرات – 15)
ابھی تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا۔ اس کا مطلب ہے اسلام الگ چیز ہے ایمان الگ چیز ہے۔ ہماری یہ جو عبادتیں ہیں ہماری یہ جو نمازیں ہیں ہمارا یہ جو حج ہے یہ اسلامی تقاضوں کے تحت تو پورے ہورہے ہیں لیکن اس کے اَندر ایمان داخل نہیں ہوا۔ یعنی اس میں رُوح شامل نہیں ۔ جب تک مسلمان کے اَندر اس کا باطن بیدار نہیں ہوجائے گا۔ جب تک مسلمان کے اَندر اس کی رُوح متحرک اور بیدار ہو کر آنکھوں کے سامنے نہیں آجائے گی…. اس وقت تک رسول اللہ ﷺ کی دعوت کا تقاضا پورا نہیں ہوگا۔
اگر آپ کو رسول اللہ ﷺ کی دعوت کا تقاضا پورا کرنا ہے اور واقعتاً اگرآپ اس قول میں سچے ہیں کہ آپ نبیِٔ برحقؐ سے محبت اور عشق کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ کے پیش کردہ اسلام کے دونوں رخوں پر عمل کریں ۔ اگر آپ نماز میں کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہتے ہیں تو آپ کا یہ یقین ہونا چاہئے کہ اب دنیا میں اللہ سے بڑا کوئی معبود نہیں ہے۔ لیکن ہماری صورت یہ ہے کہ ہم نماز میں پچاس مرتبہ اللہ اکبر کہتے ہیں اور ہمارا ذہن اللہ کی طرف نہیں رکتا دنیا کی طرف خوب دوڑتا ہے۔ ہم نے مادّیت کو اپنی زندگی کی معراج بنا لیا ہے۔ جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارا یہ جسم، گوشت پوست کا جسم، مادّیت کا جسم ایک دن فنا ہوجاتا ہے۔
جتنے بھی یہاں حضرات تشریف فرما ہیں سب کو یہ پتا ہے کسی کے دادا کا انتقال ہو گیا، کسی کے باپ کا انتقال ہوگیا، کسی کی ماں کا انتقال ہو گیا اور جس طرح ان کا انتقال ہو گیا اُسی طرح ایک دن ہم نے بھی مرجانا ہے۔ یہ مادّی جسم فنا ہوجائے گا۔ لیکن رُوح فنا نہیں ہوگی۔ تو اگر مسلمان اپنی رُوح کا عرفان حاصل نہیں کرے گا…. مسلمان سے مراد مرد نہیں…. مسلمان سے مراد مرد – عورت دونوں ہیں…. اگر خواتین و حضرات اپنی رُوح کا عرفان حاصل نہیں کریں گے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر صحیح معنوں میں لبیک نہیں کہا…. تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت کا آدھا حصہ قبول کر لیا اور آدھے حصے کو رد کردیا ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
الٓمٓ (1) ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيْهِ ….
ذٰلِكَ الْكِتَابُ …. یہ کتاب …. لَا رَيْبَ فِيْهِ …. اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے۔
کیا آپ سمجھتے ہیں اس کا کیا مطلب ہے؟
کبھی آپ نے غور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کیا کہہ رہے ہیں؟
ذٰلِكَ الْكِتَابُ…. یہ کتاب …. اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے…. یعنی یہ کتاب ان لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے جو شک و شبہ سے بالا تر ہیں۔ اگر آپ کے اَندر شک و شبہ ہے…. وسوسہ ہے…. یہ کتاب آپ کیلئے نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ کتاب شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رکھتی۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
هُدًى لِّلْمُتَّقِين …. یہ کتاب ان لوگوں کو ہدایت بخشتی ہے جو متّقی ہیں۔ دیکھئے…. هُدًى لِّلْمُسْلِمِیْن (مسلمانوں کو ھدایت دیتی ہے) …. نہیں فرمایا اللہ تعالیٰ نے…. بہت غور طلب بات ہے هُدًى لِّلْعُلَمَاء (عُلماء کو ھدایت دیتی ہے) نہیں فرمایا….. هُدًى لِّلْمُتَّقِين….
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے جن لوگوں کے اَندر شک و شبہ نہیں ہے۔
شک اور شبہ کن لوگوں کے اَندر نہیں ہوتا؟
شک و شبہ اُن لوگوں کے اَندر نہیں ہوتا جو لوگ کسی چیز کو دیکھ لیتے سمجھ لیتے ہیں…. یعنی ان کے اَندر یقین کا پیٹرن ہوتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی کہتا ہے میں نے فرشتہ دیکھا کسی نے پوچھا بھائی فرشتہ کیسا ہوتا ہے ۔ کوئی کہتا ایسا ہوتا ہے، کوئی کہتا ایسا ہوتا ہے۔ لیکن ایک ایسا بندہ کہ جس نے فرشتہ کو دیکھا ہے، آپ اُس سے پوچھیں…. فرشتہ کیسا ہوتا ہے؟ تو وہ بتا دے گا کہ فرشتہ ایسا ہوتا ہے۔ آپ نے بکری کو دیکھا ہے۔ اس لئے آپ سے بکری کے بارے میں پوچھا جائے گا تو آپ بکری کی تعریف بتادیں گے۔ لیکن اگر آپ نے بکری کو نہیں دیکھا تو کبھی آپ بکری کی تعریف گھوڑے کے روپ میں کریں گے…. گائے کے روپ میں کریں گے… بھیڑ کے روپ میں کریں گے….!
تو اللہ تعالیٰ کا یہ نظام ہے کہ اس نظام میں اگر شک و شبہ اور وسوسہ ہے…. وہ سب ضائع ہے….
اگر نظام میں شک و شبہ اور وسوسہ نہیں ہے…. یقین ہے… وہ سب کا سب باطن اور اجر ہے۔
جب تک بندہ اپنی رُوح سے دُور رہتا ہے وہ شک و شبہ میں مبتلا رہتا ہے اور جب کوئی بندہ اپنی رُوح سے واقف ہوجاتا ہے اس کے اَندر یقین کے علاوہ کوئی چیز دوسری ملتی ہی نہیں ہے۔
حضور پاک ﷺ کے زمانے میں صحابۂ کرامؓ نے …. لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ …. زبان سے کلمہ پڑھ لیا ۔ اب ان کو ساتھ لالچ بھی دیا جارہاہے۔ انہیں مارا پیٹا بھی جا رہا ہے ان کا جسم بھی پھاڑا جارہا ہے۔ لیکن وہ ٹَس سے مَس نہیں ہوتے…. وہ کہتے ہیں نہیں…. لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ ….کیوں؟
اس کئے جب انہوں نے یہ کہا …. لَا اِلٰہَ …. کا مطلب ہے کہ انہوں نے یہ کہہ دیاکہ کوئی معبود نہیں۔ جتنے باطل معبود تھے سب ان کی نظروں سے الگ ہوگئے…. اِلَّا اللّٰہ …. بس ایک معبود…. اللہ ہے… بس…! تین سو ساٹھ بت نہیں ہیں…. صرف ایک اللہ ہے…. جب تین سو ساٹھ بتوں کی نفی ہوگئی اور ایک اللہ ان کی نظروں کے سامنے آ گیا اور …. مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ …. کہہ کہ انہوں نے اس بات کی تصدیق کردی کہ یہ اللہ…. یہ ایک اللہ جو ہے…. اِس اللہ کا قاصد… مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ… ہے…. تو اُن کے اَندر یقین کا پیٹرن بن گیا۔ اور یقین کے پیٹرن کی بنیاد پر اُن کی رُوح نے اللہ کو بھی دیکھ لیا اور رسول اللہ ﷺ کو قاصد کی حیثیت سے بھی دیکھ لیا۔
آج صورت یہ ہے کہ ہم کلمہ پڑھتے ہیں، ہمارا سارا زور زبانی الفاظ پر ہے۔ یقین ہمارے اَندر نہیں ہے۔ تو اِس یقین کے نہ ہونے کی وجہ سے جس طریقے سے یقین ہمارا ٹوٹتا چلا گیا، اُسی مناسب سے ہم ایمان سے دُور ہوتے چلے گئے۔ مسلمان تو ہیں…. لیکن ایمان سے دُور ہوتے چلے گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔” ذٰلِکَ الکِتَابُ “یہ کتاب…. اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے… شک و شبہ والا آدمی اسے نہیں سمجھ پاتا۔
وہ الگ بات ہے کہ یہ کتاب ہے کیا؟ ساری کائنات کی تسخیر کے سارے فارمولے مَوجود ہیں اس کتاب میں… یہ کتاب شک و شبہ سے بالاتر ہے اس لئے شک و شبہ والا آدمی اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔
دوسری بات اللہ تعالیٰ نے فرمائی’’ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ‘‘ …. اور ساری دنیا جانتی ہے کہ یقین کی Definition یہ ہے کہ اُس کا آپ مشاہدہ کرتے ہیں، جب تک آپ مشاہدہ نہیں کریں گے… یقین جو ہے وہ نہیں بنے گا…. تکمیل نہیں ہوگی۔
میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ صاحب آپ کسی عدالت میں جائیں وہاں کسی صاحب کی آپ نے گواہی دی، تو جج نے پوچھا کہ….
صاحب یہ جو آپ گواہی دے رہے ہیں…. کیا آپ اس واقعے کے عینی شاہد ہیں؟
گواہ نے کہا میں عینی شاہد تو نہیں ہوں…. میرے بہت بڑے کرم فرما ہیں، بڑے اچھے بزرگ ہیں، دوست ہیں، نمازی ہیں، پرہیز گار ہیں، انہوں نے مجھ سے کہا ہے۔
تو کیا عدالت آپ کی گواہی تسلیم کر لے گی…. کیوں بھائی؟ …. کیوں….؟
عدالت آپ کی گواہی تسلیم نہیں کرے گی کیونکہ واقعہ جو ہے آپ نے نہیں دیکھا…. آپ اس کے عینی شاہد نہیں ہیں۔ اور جب آپ عینی شاہد ہیں تو آپ کہیں گے کہ صاحب یہ واقعہ میرے سامنے ہُوا اور میں نے اِس کو دیکھا…. آپ میری گواہی کو تسلیم کریں۔ عدالت آپ کی گواہی کو تسلیم کرے گی۔
کوئی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ رُوح مر گئی۔ کیا کوئی آدمی رُوح کے بارے میں محدود ہونا تسلیم کرسکتا ہے۔ کیونکہ رُوح محدود نہیں ہے اللہ بھی محدود نہیں ہے اگر آپ اپنی رُوح سے اللہ کو پکاریں گے اللہ کے اوپر لازم ہے کہ اللہ آپ کی بات کا جواب دے گا اور اگر آپ اپنی رُوح کے ادراک کے بغیر اس جسمانی تفاضوں کے تحت لفظوں کی شکل میں اللہ کو پکارتے رہیں گے تو کچھ نہیں ہوگا۔
یہ حضور پاک ﷺ کے زمانے کے اسلام میں اور آج کے اسلام میں فرق ہے۔ حضور پاک ﷺ کے زمانے میں جو مسلمان تھے وہ اپنے مادّی وُجود سے بھی با خبر تھے انہیں یہ علم بھی حاصل تھا کہ ہمیں اپنے مادّی وُجود کو زندہ رکھنے کیلئے ہمیں اپنے مادّی وُجود کو برقرار رکھے کیلئے کیا کیا تقاضے پورے کرنے ہیں…. کس قسم کی غذا کھانی ہے…. اور انہیں یہ بھی علم تھا کہ ہمیں اپنی رُوح کو متحرک اور بیدار کرنے کیلئے کیا اعمال کرنے ہیں۔
جس طرح حضور پاک ﷺ مادّی دنیا میں بھی رہتے تھے…. یہ نہیں تھا حضور پاک ﷺ یہاں کی روٹی نہیں کھاتے تھے…. آسمان سے کھانا نازل ہوتا تھا…. یہی روٹی کھاتے تھے جو ہم کھاتے ہیں…. لیکن ساتھ ساتھ حضور پاک ﷺ مادّی وُجود کے ساتھ رُوحانی وُجود کو بھی برقرار رکھے ہوئے تھے اور یہ تعلیم رسول پاک ﷺ کی ہے کہ مسلمان مادّی وُجود کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے رُوحانی تقاضوں کو بھی پورا کریں۔ آپ مادّی وُجود کے تقاضوں کے ساتھ رُوح کے تقاضوں کو بھی پورا کرو…. یہ ایمان ہے۔ اور جب تک ہم اپنے مادّی وُجود کو تو سب سمجھتے رہیں گے اور رُوحانی وُجود کی طرف کبھی نہیں دیکھیں گے تو ہماری جو حالت آج جتنی خراب ہے…. اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ آئندہ اور کتنی خراب ہوگی….!!
حضور قلندر بابا اورلیا ء ؒ فرماتے ہیں جس طرح مادّی وُجود کو زندہ رکھنے کیلئے غذائی ضرورت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اس جسم کو نشوونما کیلئے غذا کھائیں اس طرح رُوحانی وُجود کو بھی غذا کی ضرورت ہے اور رُوحانی وُجود کی جو غذا ہے وہ یہ ہے:
1. نماز
2. روزہ
3. حج، اور
4. زکوٰۃ ….
تو ہم اپنے رُوحانی وُجود کو تو غذا فراہم کر رہے ہیں۔ نماز بھی پڑھ رہے ہیں روزہ بھی رکھ رہے ہیں حج بھی کر رہے ہیں لیکن ہمیں یہ علم ہی نہیں ہے کہ ہمارا رُوحانی وُجود ہے بھی یا نہیں ۔ تو ایسے علم کا بھی کوئی فائدہ نہیں ۔ یہ جو عظیمیہؔ سلسلہ کا مشن ہے…. یہ جو آپ نے اتنے سارے مُقالے سنے…. یہ مِشن صرف ایک ہے…. اِس میں کوئی لمبی چوڑی بات نہیں، کشیدگی نہیں ہے…. مِشن یہ ہے کہ…. رسول اللہ ﷺ نے جو اسلام چھوڑا اس اسلام کے ساتھ ساتھ اگر ایمان ہے تو مِشن کی تکمیل ہوگی اور اگر اسلام کے ساتھ ساتھ ایمان نہیں ہے خالی اسلام ہے تو رسول اللہ ﷺ کے مِشن کی تکمیل نہیں ہوگی۔ تو ہمارا مِشن…. حضور قلندر بابا اولیاء ؒ کا مِشن…. رسول اللہ ﷺ کا مِشن…. جس کی ہم نشر و اشاعت کر رہے ہیں تربیت کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ…
آپ اپنے وُجود کے ساتھ ساتھ اپنی رُوح کو بھی تلاش کریں….
ہم یہ نہیں کہتے کہ اپنا گھر بار چھوڑ دیں، شادیاں نہ کریں، بچوں کو اچھی تعلیمات نہ دلائیں، اچھا کاروبار نہ کریں اچھا گھر نہ بنائیں۔ اچھا گھر تو آپ بنائیں اس لئے کہ جب ماں باپ بچوں کی اچھی زندگی سے خوش ہوتے ہیں تو مخلوق کی اچھی زندگی سے اللہ بھی خوش ہوتا ہے۔ مادّی وُجود کے تقاضے پورے کرتے ہوئے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آپ اپنی رُوح کو تلاش کریں۔ اگر آپ اپنی رُوح کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر رسول اللہ ﷺ کے مِشن کی تکمیل ہوگئی۔ اور ایک بار پھر واپس ایسا دَور آجائے گا جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھا اور اگر ہم نے مادّی وُجود کو ہی سب کچھ سمجھ لیا…. جیسا کہ آج مادّیت کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے اور رُوح کی طرف مُتوجّہ نہیں ہوئے تو پھر …. رسول اللہ ﷺ سے قربت حاصل نہیں ہوسکتی…. دُوریاں حاصل ہوسکتی ہیں۔
اتنے سارے لوگ یہاں تشریف لائے۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پَروانے کے اَندر ابھی طلب باقی ہے کہ وہ مادّی وُجود کے ساتھ ساتھ اپنے رُوحانی وُجود کو بھی تلاش کرنا چاہتا ہے۔ آپ کی یہ حاضری اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے اَندر تڑپ بھی ہے، آپ کے اَندر طلب بھی ہے، آپ کے اَندر ذوق بھی ہے اور آپ کے اَندر سردی کو برداشت کرنے کی برداشت بھی ہے تو پھر آپ ایک اور قدم بھی بڑھائیں جہاں آپ ہزاروں قدم بڑھا کر یہاں رسول اللہ ﷺ کی محبت میں سرشار حضور ؐ کی باتیں سننے کیلئے تشریف لائے تو وہاں ایک کام اور بھی کریں…. ایک قدم اور بڑھا کر آپ یہ طے کر کے اٹھیں کہ…. جس طرح ہم اپنے مادّی وُجود سے با خبر ہیں اسی طرح آج کے بعد کوشش کریں گے کہ اپنے رُوحانی وُجود سے بھی با خبر ہوں۔ اور جب رُوحانی وُجود سے با خبر ہوجائیں گے تو….
قرآن بھی آپ کے اوپر کھل کر سامنے آجائے گا… اور متّقی کے دائرے میں آجائیں گے…. قرآن بھی آپ کو ہدایت دے گا…. فرشتے بھی آپ کے سامنے آجائیں گے…. آپ کی اِصلاح کیلئے…. اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا…. اِس لئے کہ رُوح کیلئے کوئی پردہ نہیں ہوتا…. پردہ ہے مادّی جسم کیلئے…. جب آپ اپنی رُوح سے واقف ہوگئے تو رُوح کے سامنے کوئی پردہ ہے ہی نہیں….. بھائی تو جب رُوح آپ کی بیدار ہوگئی رُوح کی آنکھ کھلے گی…. آپ کے سامنے آسمان بھی ہوگا…. آپ کے سامنے زمین بھی ہوگی…. آپ کے سامنے یہ بات بھی آجائے گی کہ زمین کے اَندر کتنے خزانے چھپے ہوئے ہیں۔
حضرت خواجہ مُعیّن الدین چشتی اجمیری ؒ کی تربیت ان کے پیرومرشد حضرت عثمان ہارونی ؒ نے کی اور جب انہیں خلافت دینے لگے تو انہوں نے دو انگلیاں کھول کر ایسے فرمایا…. مُعیّن الدین کیا دیکھتا ہے؟ مُعیّن الدین چشتی اجمیری : نے ہاتھ جوڑ کر کہا حضور دو انگلیوں میں اٹھارہ ہزار عالَمین کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ یہ اٹھارہ ہزار عالَمین کس طرح دیکھ لئے؟ کیا مادّی آنکھ نے دیکھ لئے؟ حضرت خواجہ مُعیّن الدین چشتیؒ نے مادّی وُجود کو فنا نہیں کر دیا، ختم نہیں کردیا بلکہ مادّی وُجود کے رہتے ہوئے انہوں نے اپنی رُوح کو تلاش کیا اور انہیں جب اچھے استاد کی راہنمائی میں اس رُوح کا عرفان حاصل ہو گیا تو اتنی سی جگہ میں اٹھارہ ہزار عالَمین کا مشاہدہ کرلیا ۔ تو چلئے ہم خواجہ مُعیّن الدین چشتیؒ تو نہیں بن سکتے…. وہ تو بہت بڑے ہیں…. اگر ہم اٹھارہ ہزار عالَمین کا مشاہدہ نہیں کرسکتے تو اٹھارہ عالَمین کا مشاہدہ کر سکتے ہیں…. توہمارے لئے بھئی…. غیب کی دنیا کے اٹھارہ عالَمین بھی بہت ہیں…. ہمیں موقع ملا…. ہم گئے تو سہی…. متّقین کی صف میں ہمارا نام تو لکھا گیا….”  يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ “  کا جو گروہ ہے اس قافلے میں شامل تو ہوئے۔
میری آپ حضرات سے تمام خواتین سے تمام دوستوں سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ یہ بات تو ثابت ہوگئی یہاں آپ کا تشریف لانا، اِس سردی میں بیٹھنا، یہ مجھے پتہ ہے آپ بہت دُور دراز علاقوں سے…. بڑی مشکل سے یہاں پہنچے ہیں، سب کے پاس سواری تو ہے نہیں…. اتنی صعوبت اٹھا کر یہاں تشریف لائے…. اِس کے پیچھے… اِس کے پیچھے یہ بات تو ضرور ہے کہ آپ کو تلاش ہے اور تلاش مادّیت کی نہیں ہے۔ مادّیت کی اگر تلاش ہوتی تو شہر چھوڑ کر آپ اس بیاباں میں نہیں آتے، اس کھلے آسمان کے نیچے نہیں بیٹھتے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابھی بارش ہوجائے کہ آپ سوچ رہے ہوں کہ ٹھنڈ ہو جائے گی، بارش ہوجائے گی، نمونیہ ہوجائے گا۔ نہ آپ کو تلاش ہے مادّیت کی… یہاں آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جتنے لوگ یہاں تشریف فرما ہیں جتنی میری مائیں، بیٹیاں ہیں اور بھائی ہیں…. اُن کو تلاش… مادّیت سے ہٹ کر رُوحانیت کی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا آپ کے اوپر کرم ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ ابھی آپ کے اَندر جو اللہ تعالیٰ کا جنون ہے…. وہ کروٹیں بدل رہا ہے اور آپ کو بے چین کئے ہوئے ہے کہ آپ حضور ؐ کی جھلک دیکھ لیں۔ تو جب آپ کے اَندر جذبہ بھی ہے آپ کے اَندر اللہ تعالیٰ کی عنایت اور توفیق بھی ہے…. تو آپ اِسی وقت ایک قدم بڑھائیں اور اپنی رُوح کو تلاش کریں…. اور اپنی رُوح کو تلاش کرنے کا جو مؤثر ذریعہ ہے…. جو ہمارے نبئِ برحق خاتم النبّیین محمد ﷺ نے دیا ہے…. نبوت سے پہلے…. وہ ان کی غارِ حرا کی سنت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نبوت سے پہلے غارِ حرا تشریف لے جاتے تھے۔ یہ سب جانتے ہیں اس میں کوئی اختلاف نہیں اور رسول اللہ ﷺ غارِ حرا میں اس وقت تشریف لے جاتے تھے جب نماز فرض نہیں ہوئی تھی۔ تو رسول اللہ ﷺ غارِ حرا میں کیا کر رہے تھے؟ اچھا آپ یہ کہیں گے کہ کوئی جگہ نہیں تھی کیا کرتے خانۂِ کعبہ میں بت تھے ۔ ٹھیک ہے وہاں بت رکھے تھے لیکن ضروری تو نہیں تھا کہ بھئی بتوں کی پوجا کی جائے خانہ کعبہ کا گوشہ بھی تھا سارے خانہ کعبہ میں تو بت نہیں رکھے ہوئے تھے۔
تو رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ کو چھوڑ کر غارِ حرا مراقبہ کرنے جاتے تھے…. جسمانی تقاضوں کے ساتھ ساتھ۔ ستّو باندھ کے لے جاتے تھے، تھوڑا پانی لے لیا تھوڑا ستّو لے لیا…. تاکہ جب بھوک لگے تو ستّو کھالیں۔ یعنی جسمانی تقاضہ مَوجود تھا۔ اُس کی حفاظت بھی مَوجود تھی۔ اُس کو پورا کرنا بھی مَوجود تھا۔ اِ س کے باوجود غارِ حرا میں وہ اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنے کے لئے اور اپنی رُوح کو تلاش کرنے کے لئے تفکر فرمایا کرتے تھے۔ تفکر کا مطلب یہ ہے کہ مراقبہ، مراقبہ کا مطلب یہ ہے کہ مراقبہ میں آپ اپنے ذہن کو دنیاوی معاملات سے، دنیاوی آلائش سے، دنیاوی دلچسپیوں سے…. عارضی طور پر الگ کر لیں۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ دنیاوی معاملات سے الگ ہو کر غارِ حرا میں تشریف لے جاتے تھے…. اب غارِ حرا تو آپ کو نصیب نہیں ہے پاکستان میں۔ اللہ کرے آپ وہاں جائیں… کم از کم آپ اپنے گھر کے ایک کونے کو ہی غارِ حرا تصوّر کر کے مراقبہ تو کریں۔ وہ گھر کا کونا ہی آپ کے لئے غارِ حرا بن جائے گا۔ اس لئے کہ آپ جب رُوح کی طرف مُتوجّہ ہوں گے تو رُوح آپ کی طرف مُتوجّہ ہوگی۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو بندہ میری طرف ایک قدم بڑھاتا ہے میں اس کی طرف دو قدم بڑھاتا ہوں جو بندہ میری طرف لپک کے آتا ہے میں اس کی طرف دَوڑ کر آتا ہوں۔ حضور قلندر بابا اولیاء ؒ فرمایا کرتے تھے کہ یہ عجیب اللہ کی مخلوق ہے… مسلمان عجیب ہیں…. اللہ آوازیں لگا رہا ہے میرے بندو آجاؤ میں تمہارے قریب ہوں… بندہ آتا ہی نہیں…. بندہ جو ہے…. دنیا کی طرف ہی بھاگے چلا جا رہا ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا؟
ابھی ایک مثال دی گئی تھی تقریر میں داتا گنج بخش ہجویری ؒ کی اور جہانگیر کے مقبرے کی کہ….ایک اللہ کا بندہ ہے وہ آپ کے سامنے ہے…. اورایک جہانگیر کا مقبرہ ہے… بادشاہ…. وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔
اُس بندے (علی ہجویریؒ) نے مادّی وُجود کو کھو نہیں دیا…. کھانا نہیں چھوڑا…. کپڑے نہیں اُتار دیئے…. ایسا نہیں ہوا کہ وہ گھر کی دیواریں توڑ کے آسمان پر بیٹھ گیا ہو…. سب کچھ کِیا…. مادّی تقاضوں کو ساتھ ساتھ پورا کرتے ہوئے اس نے اپنی رُوح کو بھی تلاش کِیا۔ اور جب رُوح کو تلاش کر لیا تو داتا گنج بخش ہجویری ؒ بن گئے ۔ اور جب ایک بندے نے رُوح سے رشتہ توڑلیا صرف مادّیت کو…. ظاہر کو…. تلاش کِیا…. تو ظاہر ہی بنا۔
سلسلۂِ عظیمیہؔ کا یہ جو مشن ہے کہ…. اللہ تعالیٰ نے آپ کو صلا حیت بھی دی ہے اور توفیق بھی دی ہے…. صلاحیت اور توفیق کے ساتھ ساتھ رُوح کو تلاش کریں…. مراقبہ کریں…. اِن شاء اللہ ایک دن ایسا آئے گا کہ آپ کے اوپر غیب کا دروازہ کھل جائے گا…. رُوح سامنے آجائے گی اور جب رُوح سامنے آجائے گی تو اللہ سامنے آجائے گا اور جب اللہ سامنے آجائے گا تو ساری کائنات سامنے آجائے گی۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔

السّلام علیکم!

Topics


خطبات لاہور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اِنتساب

اُس جبلِ نور کے نام…..

جہاں سےمُتجلّیٰ ہونے والے نورِ ہدایت نے نوعِ انسانی کی ہرمعاملے میں راہنمائی فرما کرقلوب کی بنجر زمین کو معرفتِ اِلٰہیہ سےحیات عاو کرنے کا نظام دیا