Topics
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب و مقرب بندوں کی خصوصیات کے ضمن میں ایک بات یہ بتائی ہے کہ راتوں کو ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں اور بیدار رہ کر اپنے رب کی طرف متوجہ رہتے ہیں، اس سے صراط مستقیم پر چلنے کی دعائیں مانگتے ہیں، اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں، رکوع و سجود میں مصروف رہتے ہیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہی ارشاد فرمایا کہ:
’’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے! رات کو قیام کیا کرو مگر کم، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو، ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔‘‘ (سورۂ مزمل)
رات کے اس قیام کی وجہ اللہ تعالیٰ نے خود یہ بتائی ہے کہ:
’’درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لئے بہت کارگر اور قرآن پڑھنے کے لئے زیادہ موزوں ہے۔‘‘ (سورۂ مزمل)
ان احکامات کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول تھا کہ آپ اول شب آرام فرماتے تھے اور رات کے پچھلے پہر عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے۔ یہی عبادت اور نیند کے بہترین اوقات ہیں۔ عام حالات میں رات گئے تک جاگنے اور دوسرے وقتوں میں نیند پوری کرنے سے اعصاب بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ فطرت کے نظام میں رات کا پہلا حصہ آرام اور سکون کے لئے، پچھلا پہر عبادت اور یکسوئی کے حصول کے لئے اور دن کا وقت حصول معاش اور دوسری مصروفیات کے لئے مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور ہم نے نیند کو تمہارے لئے سکون و آرام، رات کو پردہ پوش اور دن کو روزی کے لئے دوڑ دھوپ کا وقت بنایا ہے۔‘‘
(سورۂ النساء)
نیند اور بیداری کے معاملے میں اعتدال کی روش اختیار کرنی چاہئے۔ نہ اتنا زیادہ سونا چاہئے کہ جسم پر کاہلی سوار ہو جائے اور دماغی فعل سست پڑ جائے اور نہ اتنا کم سونا چاہئے کہ دماغی تھکن پوری طرح رفع نہ ہو۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے ایک بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا‘
کیا یہ بات صحیح ہے کہ تم روزانہ دن میں روزے رکھتے ہو اور رات رات بھر نماز میں گزارتے ہو؟ حضرت عبداللہؓ نے کہا‘ جی ہاں۔ یہ بات درست ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا‘ نہیں ایسا نہ کرو، کبھی روزہ رکھو اور کبھی کھاؤ پیو۔ اسی طرح سوؤ بھی اور اٹھ کر نماز بھی قائم کرو۔ کیونکہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے۔
’’کیا ان لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے رات بنائی تا کہ یہ آرام و سکون حاصل کریں اور دن کو روشن ، بلاشبہ اس میں مومنوں کے لئے سوچنے کے اشارات ہیں۔‘‘ (سورۂ النمل)
حضرت اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سونے کے لئے تشریف لے جاتے تو وضو کرتے اور لیٹنے سے پہلے قرآن پاک کے کسی حصہ کی تلاوت فرماتے۔ بستر میں لیٹنے سے پہلے اکثر یہ دعا کرتے تھے:
’’اے میرے رب! تیرے ہی نام سے میں نے اپنا پہلو بستر پر رکھا اور تیرے ہی سہارے میں اس کو بستر سے اٹھاؤں گا۔ اگر تو رات ہی میں میری جان قبض کرے تو اس پر رحم فرما اور اگر تو اسے چھوڑ کر مزید مہلت دے تو اس کی حفاظت فرما جس طرح تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘
کبھی آپﷺ یہ دعا فرماتے:
’’شکر و تعریف خدا ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں کھلایا پلایا اور جس نے ہمارے کاموں میں بھرپور مدد فرمائی اور جس نے ہمیں رہنے بسنے کا ٹھکانا بخشا۔ کتنے ہی لوگ ہیں جن کا نہ کوئی معین و مددگار ہے اور نہ کوئی ٹھکانا دینے والا۔‘‘
حضرت ﷺ نرم اور ملائم بستر استعمال نہیں کرتے تھے۔ آپﷺ کا بستر چمڑے کا تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ حضرت حفصہؓ کا بیان ہے کہ میرے ہاں آپﷺ کا بستر ایک ٹاٹ تھا جس کو دوہرا کر کے ہم حضورﷺ کے نیچے بچھا دیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی چٹائی پر بھی آرام فرماتے تھے۔ آپﷺ نے کبھی بھی خواب گاہ کے لئے یا آرام کرنے کے لئے قیمتی اور نرم سامان استعمال نہیں کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم چٹائی پر سو رہے تھے۔ چٹائی پر لیٹنے کی وجہ سے آپﷺ کے جسم پر نشانات پڑ گئے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں۔’’میں یہ دیکھ کر رونے لگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے روتا دیکھ کر وجہ دریافت فرمائی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ قیصر و کسریٰ تو ریشم اور مخمل کے گدوں پر سوئیں اور آپ بوریئے پر؟‘‘
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’یہ رونے کی بات نہیں ہے۔ ان کے لئے دنیا ہے اور ہمارے لئے آخرت ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سونے سے پہلے ضروری چیزیں اپنے سرہانے رکھ لیا کرتے تھے۔ آپﷺ کا ارشاد تھا کہ سونے سے پہلے گھر کی تمام چیزوں کا اچھی طرح جائزہ لے لیا کرو، کھانے پینے کے برتن ڈھانک دو اور آگ جل رہی ہو تو اسے بجھا دو۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب بستر پر تشریف لے جاتے تو دونوں ہاتھ دعا مانگنے کی طرح ملاتے اور سورۂ اخلاص، سورۂ الفلق اور سورۂ الناس تلاوت فرما کر ہاتھوں پر دم فرماتے اور پھر جہاں تک ہاتھ پہنچتا اپنے جسم مبارک پر پھیر لیتے اور یہ عمل تین مرتبہ کرتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم دائیں رخسار کے نیچے ہاتھ رکھ کر دائیں کروٹ لیٹنا پسند فرماتے تھے۔ اور سونے سے پہلے بستر کو اچھی طرح جھاڑ لیتے تھے۔ رات کے پچھلے پہر جلد سے جلد بیدار ہو کر عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ کبھی اس سے بھی پہلے بیدار ہو جاتے تھے اور کبھی تو پوری رات عبادت میں مصروف رہتے تھے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔