Topics

دعوت و تبلیغ

دعوت تبلیغ اور اذیت و تکالیف

سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے بے شمار عالمین بنائے۔ کائنات میں بے شمار مخلوقات تخلیق کیں اور انہیں ایک نظام کے ذریعے ایک دوسرے کی خدمت کے لئے پابند کیا۔ اس کے بعد کائناتی نظام کو قائم رکھنے کیلئے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا۔

امت مسلمہ کو اس طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ رسول اللہﷺ نے دین کو پھیلانے کے لئے کتنی اذیتیں اور تکالیف برداشت کیں۔ سیرت طیبہ کے اس پہلو کا مطالعہ کر کے اسلام کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے تا کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا پرچار کرنے کے لئے ہمت اور حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ حضّور پاکﷺ کے جانثاروں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے لئے اپنی جان اور مال قربان کیا۔

رسول اللہﷺ نے بذات خود ہمت و حوصلہ کی چٹان بن کر مستقل مزاجی سے توحید کا پیغام عام کرنے کے لئے ناقابل بیان حالات کا مقابلہ کیا۔ میں نے حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات مبارکہ کے اس حصہ کا بہت غور و فکر سے مطالعہ کیا ہے جس میں آپﷺ نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کیلئے اذیت اور تکالیف برداشت کیں۔

آیئے! پیدائش سے لے کر وصال تک حیات مبارکہﷺ پر غور کریں۔ پیدائش سے پہلے والد محترم کا انتقال ہو گیا۔ چند سال بعد والدہ ماجدہ انتقال فرما گئیں۔ اس کے بعد دادا بھی اس دنیا سے چلے گئے۔ یہ صدمات کیا کم تھے کہ اہل خاندان نے بے شمار اذیتیں پہنچائیں۔ آپﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے حتیٰ کہ آپﷺ کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔

مشرکین مکہ نے جب حضورﷺ کے مشن کو کامیاب ہوتے دیکھا تو انہوں نے قریش مکہ کے چیدہ چیدہ سرداروں کی مشاورت سے ایک جماعت بنائی اور ان قریشی سرداروں نے طے کیا کہ محمدﷺ اور ان پر ایمان لانے والوں پر اتنازیادہ ظلم و تشددکیا جائے کہ وہ ہمارے راستے سے ہٹ جائیں۔

طائف کے سفر میں دعوت و تبلیغ کے لئے آپﷺ نے وہاں اپنے رشتہ دار کے گھر قیام کرنا چاہا تو انہوں نے مہمان نوازی کی بجائے طائف کے شعبدے، غنڈے اور بدمعاش آپﷺ کے پیچھے لگا دیئے اور ان لوگوں نے حضّور پاکﷺ کو اتنے پتھر مارے کہ آپﷺ لہولہان ہو گئے اور آپﷺ کے نعلین مبارک خون سے بھر گئیں۔

رسول اللہﷺ کے عطا کردہ روحانی علوم کے متلاشی افراد کے لئے ضروری ہے کہ سیرت طیبہﷺ کو بار بار پڑھیں اور اس بات پر تفکر کریں کہ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شرک کو ختم کرنے، توحید کا پرچار کرنے اور کفار کو صراط مستقیم پر لانے کے لئے کیسی کیسی تکالیف برداشت کر کے اللہ کے مشن کو عام کیا۔

مسلمان جب حضورﷺ کی سیرت طیبہﷺ پڑھ کر اس پر غور کریں گے اور رسول اللہﷺ کے اخلاق حسنہ اور سنت پر خلوص نیت، اتحاد، یگانگت اور تفرقہ سے بالاتر ہو کر عمل پیرا ہوں گے تو انہیں قدم قدم پر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا تعاون ملے گا۔ رسول اللہﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے سے جرأت مندانہ قدم اٹھانے ، دل شکستہ حالات کا سامنا کرنے، مخالفین کی الزام تراشیوں کو نظر انداز کرنے اور بلا تفریق لوگوں تک صحیح بات پہنچانے کا حوصلہ پیدا ہو گا۔

ایک ارب مسلمان جیسے بھی ہیں رسول اللہﷺ پر جان سے فدا ہیں اور رسول اللہﷺ کی شفاعت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی محبت مسلمانوں کے قلوب میں داخل کی ہوئی ہے لیکن مسلمانوں کی محبت کا اظہار صرف زبانی کلامی ہے جبکہ رسول اللہﷺ نے ہر عمل خود کر کے دکھایا ہے۔

مسلمانوں میں دعا کا ایک مخصوص فہم پیدا ہو گیا ہے وہ صرف اور صرف دعا کرنے اور کسی بزرگ سے دعا کرانے تک محدود ہو گئے ہیں لیکن رسول اللہﷺ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو حضّور پاکﷺ نے دعا کے ساتھ عمل بھی کیا۔ غزوہ بدر میں حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ 313افراد تھے۔ جبکہ دوسری طرف ایک ہزار مسلح افراد تھے۔ آپﷺ نے مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں بیٹھ کر دعا نہیں کی بلکہ میدان جنگ میں جا کر یہ دعا فرمائی۔

’’یا اللہ جو کچھ میں لا سکتا تھا لے آیا، اب ہماری مدد کر۔‘‘

آپﷺ نے عملی مظاہرہ کے بعد جب دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے 313افراد کیلئے ایک ہزار فرشتے بھیج دیئے۔ یہ سوچنا ہے کہ ہم جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں پہلے اس کا عملی مظاہرہ کریں اور پھر درود و سلام کے ساتھ رسول اللہﷺ کی نسبت اور وسیلے سے اللہ تعالیٰ کے حضّور دعا کریں۔ صرف دعا بے عملی کا مظاہرہ ہے۔

امت مسلمہ میں سے عمل نکل گیا ہے۔ عملی زندگی کی طرف سے توجہ ہٹ گئی ہے اور بے عملی سے انتشار پیدا ہوا ہے۔ انتشار سے اختلاف بڑھا اور فرقے بن گئے۔ فرقے اس لئے بن رہے ہیں کہ عملی مظاہرہ کم سے کم ہو گیا ہے۔

جب ہم عملی مظاہرہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضّور عاجزی سے جھکتے اور سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ہم اپنے آقا محمد رسول اللہﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔

رسول اللہﷺ سے عشق و محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سب بحیثیت امتی، حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عملی زندگی کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔ رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو عام کرنے کیلئے جو تکالیف برداشت کی ہیں ہم ان تکالیف کا تصو رکریں اور رسول اللہﷺ کے معین کردہ راستے پر پورے عزم اور حوصلےکے ساتھ قائم رہیں۔

’’غزوہ بدر میں فتح، عمل و دعا کے براہ راست تعلق کی ایک عظیم الشان مثال ہے۔ عمل کے بعد دعا کے نتیجے میں کامیابی، قانون فطرت کے تحت ایک آفاقی حقیقت بن جاتی ہے۔ سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ نسبت عملی طور پر امت مسلمہ کو منتقل ہوئی ہے جو دور جدید کے مسائل اور مشکلات میں ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اس امر کے اعادہ کے لئے غزوات کے واقعات شامل کتاب کئے جاتے ہیں۔‘‘

غزوہ بدر

مکہ میں مشرکین کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی آباد تھے۔ نقل و حمل اور بود و باش کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ نصرانی، مجوسی اور لادین سب کو اجازت تھی کہ وہ مکہ میں جب چاہیں آئیں اور سکونت اختیار کریں یا واپس چلے جائیں۔ خانہ کعبہ میں ایک بت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام سے بھی منسوب تھا۔ اس طرح مذہب ہر شخص کاذاتی اور انفرادی معاملہ تھا۔

یہ بات قابل غور ہے کہ جب مکہ میں شخصی آزادی تھی تو مکہ کے امراء، روساء اور صاحب اختیار اسلام کے کیوں مخالف ہوئے۔ 

انہوں نے توحید کی دعوت سے دستبردار ہونے کے لئے سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو زر و جواہرات، خوبصورت خاتون سے شادی اور بادشاہت کی پیشکش کی اور جب ان کی پیش کش قبول نہیں کی گئی تو مکہ کے متولی اور کرتا دھرتا حضّور اکرمﷺ کی جان کے درپے ہو گئے۔

بھرپور مخالفت کے باوجود جب رسول اللہﷺ نے اس عزم کا اظہار فرمایا کہ

’’اگر میرے داہنے ہاتھ پر سورج رکھ دیا جائے اور بائیں ہاتھ پر چاند، میں پھر بھی اللہ کی وحدانیت کا پیغام پہنچاتا رہوں گا۔‘‘تو مکہ کے صاحب اختیار اور حکمران مایوس ہو گئے۔ ہر سطح پر کوشش کی گئی اور سفارتی ذرائع اختیار کئے گئے کہ مسلمان کہیں سکون سے نہ رہ سکیں۔ صاحبان اقتدار یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ مکہ کے باسی جن کو بقول ان کے مذہبی آزادی حاصل تھی مکہ سے ہجرت کر جائیں۔

عربوں کی روایات میں آقا و غلام، کنیز و مالک، غریب اور امیر کا امتیاز فخر و مباہات اور کبر و نخوت کا اظہار۔۔۔۔۔۔قتل و غارتگری اور لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینا اعلیٰ اقدار سمجھی جاتی تھیں اور ان خاندانی روایات قائم رکھنے کے لئے مردوں کی فصل رکھی جاتی تھی۔

اہل مکہ نے جب یہ دیکھا کہ اسلام۔۔۔۔۔۔محکوم و زیردست اور غلام و کنیز کی پشت پناہی کرتا ہے معصوم جانوں کے قتل سے روکتا ہے تو انہیں اپنا اقتدار خطرہ میں نظر آیا۔ ابو جہل اور دوسرے وڈیروں نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اسلام چونکہ انسانیت کا تحفظ کرتا ہے، افلاس سے کچلے ہوئے اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے غلاموں کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیتا ہے۔ جس سے ہمارا اختیار ختم ہو جائیگا، ہمارے محلات مسمار ہو جائیں گے۔ ہم اپنی من مانی نہیں کر سکیں گے اور چند ہاتھوں میں سمٹا ہوا اقتدار عوام میں چلا جائیگا تو وہ اسلام کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے۔ طبقاتی تقسیم اور خود ساختہ معاشرتی نظام پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے داعئ اسلام کے مخالف ہو گئے۔ کفار مکہ نے تمام تر پیش کش میں ناکامی اور مظالم ڈھانے کے بعد رسول اللہﷺ سے کہا!

’’اللہ کی قسم ہم تمہیں ہرگز نہ چھوڑیں گے حتیٰ کہ ہم تمہیں تباہ کردیں یا تم ہمیں تباہ کر دو۔‘‘

رسول اللہﷺ نے قریش کے مظالم کو حد سے متجاوز دیکھ کر مسلمانوں کو اجازت دے دی کہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے جائیں۔ رسول اللہﷺ نے خود ابھی تک ہجرت کا ارادہ نہیں کیا تھا کیونکہ آپﷺ حکم خداوندی کے منتظر تھے۔ قریش نے دیکھا کہ مسلمان ایک ایک کر کے مدینہ نکل گئے ہیں اور مدینہ میں مسلمانوں کی ایک معقول تعداد جمع ہو گئی ہے۔ جس کی طاقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ دین کے بانی کا خاتمہ کرنا ضروری ہو گیا ہے کیونکہ اگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی مکہ سے چلئے گئے تو پھر اس نئے مذہب کا مقابلہ بہت دشوار ہو جائے گا۔ قریش کے تمام بڑے بڑے سردار ابو جہل کی اس رائے پر متفق ہوئے کہ ہر قبیلہ سے ایک ایک شمشیر زن منتخب کر کے محمدﷺ پر ایک ساتھ اس طرح وار کیا جائے کہ آپﷺ کا خون تمام قبائل پر تقسیم ہو جائے۔

اس اثناء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہﷺ کو ہجرت کا حکم مل گیا تو آپﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رفیق سفر منتخب کیا۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے بستر پر سلایا تا کہ وہ اگلی صبح اہل مکہ کی امانتیں ان کے سپرد کر دیں۔ 

آپﷺ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ مکہ سے چار میل کے فاصلے پر کوہ ثور کی ایک غار میں تشریف لے گئے اور وہاں سے تین دن کے بعد مدینہ روانہ ہوئے۔

مکہ کے صاحبان اقتدار اور بااثر سردار جب رسول اللہﷺ کو قتل کرنے کی کوشش میں ناکام رہے تو انہوں نے مدینہ کے بااثر سردار عبداللہ بن ابی کو خط لکھا۔

تم نے ہمارے آدمیوں کو پناہ دی ہے

تم لوگ ان کو قتل کر دو یا مدینہ سے نکال دو

ورنہ ہم اللہ کی قسم کھاتے ہیں ہم تم پر حملہ کر دیں گے

اور تم کو فنا کر کے تمہاری عورتوں پر تصرف کریں گے

قریش مکہ کی خوشحالی کا دارومدار ملک شام کے ساتھ تجارت پر تھا۔ شام جانے والی شاہراہ مدینے کے قریب سے گزرتی تھی۔ اسلامی مملکت نے جب روز افزوں ترقی کی تو رسول اللہﷺ نے قافلوں کی چیکنگ کا حکم صادر فرما دیا۔

اہل مکہ شام جانے والی شاہراہ محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ ماہ ربیع الاول ۲ ؁ھکو قریشی سردار کرز نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے مویشی ہانک کر لے گیا جب مسلمانوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے تعاقب کر کے مویشی واپس لے لئے لیکن کر ز بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

جمادی الثانی کے آخری دنوں میں سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عبداللہ بن حجشؓ کو بارہ مہاجرین کے ہمراہ نخلہ کی جانب ایک خفیہ مہم پر بھیجا اور عبداللہ بن حجشؓ کوایک سربندہدایت نامہ دے کر فرمایا کہ اسے دو روز بعد کھولنا اور اس کی تعمیل کرنا لیکن تعمیل میں کسی ساتھی کو مجبور نہ کرنا۔ دو روز بعد جب ہدایت نامہ کھولا گیا تو اس میں تحریر تھا کہ مکہ اور طائف کے درمیان وادئ نخلہ جاؤ اور قریش کے حالات کا پتہ لگاؤ۔ یہ خفیہ مہم ایک جان جوکھوں کا کام تھا لیکن اس ہدایت میں حملہ، قتل یا لڑائی کا حکم نہ تھا صرف سراغرسانی مقصود تھی۔

عبداللہ بن حجش ساتھیوں کے ساتھ آگے بڑھے تو اتفاق سے ایک تجارتی قافلہ گزر رہا تھا۔ انہوں نے موقع پا کر قافلہ پر حملہ کر دیا اور قریش کے ایک مقتدر حلیف عمرو بن الحضرمی کو قتل اور دیگر دو افراد کو بمعہ سامان گرفتار کر لیا۔ اس دن رجب کی یکم تاریخ ہو گئی تھی اور مسلمان ابھی جمادی الثانی کے خیال میں ہی تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔ رجب کا ماہ عرب میں لڑائی کے لئے حرام تھا۔ یہ واپس مدینہ منورہ لوٹے تو سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس فعل پر ناراضگی کا اظہار کر کے فرمایا!

’’میں نے تمہیں جنگ کی اجازت نہیں دی تھی۔‘‘

ماہ رجب میں اس خونریزی پر قریش مکہ سخت مشتعل ہو گئے۔ مسلمانوں پر حملہ کیلئے کفار مکہ کے تمام قبائل اور رؤسا پر مشتمل ایک ہزار  افرادکا لشکر جرار ایک سو گھوڑوں، سات سو اونٹوں اور اسلحہ سے لیس ہو کر 6رمضان المبارک 2ہجری کو مکہ سے روانہ ہوا اور 16رمضان المبارک کو میدان بدر پہنچا۔

رسول اللہﷺ کی سپہ سالاری میں 12رمضان المبارک ۲ ؁ھ کو تین سو تیرہ مجاہدین پر مشتمل لشکر مدینہ منورہ سے روانہ ہوا اور 16رمضان المبارک کو وادئ بدر کے نزدیک پہنچا۔ ان میں 77مہاجرین اور 236انصار تھے اور ان کے پاس صرف تین گھوڑے، سترہ اونٹ، چھ تلواریں اور آٹھ زرہ بند تھیں۔

بدر کے میدان میں جہاں مسلمانوں نے پڑاؤ کیا وہ ریگستانی علاقہ تھا۔ اور اس جگہ پانی موجود نہ تھا۔ جس طرف مشرکین کا لشکر تھا وہاں پانی بھی تھا اور اس کے علاوہ انہوں نے پانی کی ضرورت پوری کرنے کیلئے کنویں کھود لئے تھے۔

نصرت ایزدی مسلمانوں کے ساتھ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی بارش برسائی کہ پوری وادی جل تھل ہو گئی۔ جس ریت میں مجاہدین کے پیر دھنستے تھے وہ جم گئی جبکہ کفار کی جگہ پر کیچڑ بن گیا اور زمین دلدل کی طرح ہو گئی۔

مبارزت میں مجاہدین کا پلہ بھاری رہا اور عام لڑائی شروع ہوئی۔ جب آپﷺ نے دونوں لشکروں کو باہم دست و گریبان دیکھا اور کفار کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت ملاحظہ فرمائی تو خیمے میں دعا و مناجات کی۔ اس وقت خیمہ میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کے علاوہ کوئی نہ تھا۔

آپﷺ نے فرمایا!

’’اے خدا اپنے اس وعدہ کو پورا فرما جو تو نے مجھ سے کیا ہے۔‘‘

آپﷺ نے دعا میں اتنی الحاح و زاری کی کہ آپﷺ کے دوش مبارک سے چادر گر پڑی۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے چادر اطہر اٹھا کر حضورﷺ کے دوش مبارک پر ڈالی اور کہا!

’’یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و سلم 

آپﷺ نے اپنے رب سے جو مانگا ہے حق تعالیٰ بہت جلد اسے پورا کر دیں گے۔‘‘

اس کے بعد حضّور اکرمﷺ پر یکایک غنودگی طاری ہو گئی اور پھر آپﷺ نے بیدار ہو کر حضرت ابو بکر صدیقؓ سے متبسم ہو کر فرمایا!

’’اے ابو بکرؓ اب خدا کی مدد آ گئی ہے اور

حضرت جبرائیل علیہ السلام اپنے گھوڑے کی لگام پکڑ کر آ گئے ہیں۔‘‘

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں غزوہ بدر کی مشغولیت میں بار بار حضّور اکرمﷺ کے پاس خیمہ میں آتا اور دیکھتا کہ حضّور اکرمﷺ سجدے میں ہیں اور یہ دعا مانگ رہے ہیں۔

یا حی یا قیوم! برحمتک استغیث

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’جب تم اپنے رب سے مناجات کر رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول فرمائی بے شک میں تمہاری مدد پے در پے ہزار فرشتوں سے کرنے والا ہوں۔‘‘

ربیع بن انسؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے مسلمانوں کی مدد کیلئے ایک ہزار فرشتوں سے مدد فرمائی ، اس کے بعد تین ہزار کر دیئے۔ اس کے بعد پانچ ہزار کر دیئے۔

جس وقت دونوں لشکر ایک دوسرے سے دست و گریبان تھے تو حضّور اکرمﷺ نے ایک مٹھی ریت کفار کے منہ کی جانب پھینکی۔ جب وہ ریت ان کے چہروں پر پڑی تو کوئی مشرک ایسا نہ تھا کہ اس کی آنکھوں اور ناک میں اس کے ذرے نہ پہنچے ہوں۔ پھر ان کے منہ پھر گئے اور یہ شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا!

اے محبوبﷺ

آپ نے مشت خاک نہیں پھینکی جب آپ نے پھینکی

بلکہ وہ اللہ نے پھینکی۔

دوران غزوہ حضرت عکاشہؓ کی تلوار ٹوٹ گئی تو وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورﷺ نے ایک لکڑی ان کے ہاتھ میں دے دی اور فرمایا اس کے ساتھ جنگ کرو۔ حضرت عکاشہؓ کے ہاتھ میں لکڑی کی چھڑی لوہے کی سفید تلوار بن گئی اور انہوں نے ا س تلوار سے ہی غزوہ میں حصہ لیا یہاں تک کہ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ حضرت عکاشہؓ نے اس تلوار کا نام عون رکھا۔

بدر کے دن فرشتوں کے گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز تو سنائی دیتی لیکن فرشتے نظر نہیں آتے۔ مسلمان جب کسی کافر کا پیچھا کرتے تو قبل اس کے کہ وہ اس کافر کے قریب پہنچتے وہ یہ دیکھتے کہ اس کا سرزمین پر کٹا پڑا ہے۔

فتح کے بعد حضّور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے تین روز تک وادئ بدر میں قیام فرمایا اور تیسرے دن حکم دیا کہ آپﷺ کی سواری لائی جائے۔ آپﷺ اس پر سوار ہوئے، مجاہدین کی ایک جماعت بھی آپﷺ کے ہمراہ ہوئی۔ حضورﷺ اس کنویں پر تشریف لائے جس میں کفار کی لاشوں کو ڈالا گیا تھا۔ آپﷺ نے ایک ایک کا نام لے کر آواز دی۔

o اے عتبہ بن ربیع

o اے شیبہ بن ربیع

o اے ابو جہل بن ہشام

کیا تمہیں یہ خوش کن معلوم نہ ہوتا تھا کہ تم اللہ اور اس کے رسولﷺ کی فرمانبرداری کرتے۔ اب جبکہ پردہ اٹھ گیا ہے اور اللہ کے عذاب کو دیکھ لیا تو تم مسلمان ہونے کی آرزو کرتے ہو۔۔۔۔۔۔ 

اس کے بعد فرمایا!

o بلاشبہ ہم نے اسے حق پایا، جو اللہ تعالیٰ نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کیا تم نے بھی اسے حق پایا۔ جس عذاب کی وعید تم سے کی گئی تھی۔

حضرت عمرؓ نے عرض کیا!

یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و سلم

آپﷺ ان اجسام سے مخاطب ہیں۔ جن میں ارواح موجود نہیں ہیں۔

حضورﷺ نے فرمایا!

o ’’قسم ہے اس اللہ کی! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ تم ان سے زیادہ اس بات کے سننے والے نہیں ہو۔ جو کچھ میں بیان کر رہا ہوں، وہ خوب سن رہے ہیں لیکن جواب نہیں دے سکتے۔‘‘

اصحاب بدر کو مدینہ منورہ واپسی پر جب فتح کی تہنیت و مبارک باد دی گئی تو انہوں نے کہا!

اے اہل مدینہ! ہمیں کس بات پر مبارک دیتے ہو

یہ فتح ہمارے زور بازو سے نہیں تھی

ہم نے کفار کو دیکھا کہ ان کے سر تن سے جدا پڑے ہیںلیکن ہم نے ان پر تلوار چلانے والوں کو نہیں دیکھا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت اور مدد کو قرآن پاک کی کئی آیات میں بیان فرمایا ہے۔

.1 یاد کرو جب تمہارے سکون کے لئے اپنی طرف سے تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا اور آسمان سے پانی برسا رہا تھا کہ تم کو پاک کرے اور شیطان کی ناپاکی تم سے دور کرے اور تمہارے دل مضبوط اور ثابت قدم رکھے۔

.2 یاد کرو جب فرشتوں کو حکم دے رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں مسلمانوں کو ثابت قدم رکھنا۔ میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا۔ کافروں کی گردنیں مارو اور ہر جوڑ پر مارو، یہ اس لئے کہ انہوں نے خدا اور خدا کے رسول سے دشمنی کی ہے۔

.3 اور جو خدا اور خدا کے رسول سے دشمنی کرے گا خدا اس کو سخت عذاب دینے والا ہے۔ یہ ہے عذاب، اس کا مزہ چکھو۔ کافروں کے لئے عذاب دوزخ ہے۔

.4 مسلمانوں! جب میدان جنگ میں کافروں کے مقابل آؤ تو پشت نہ پھیرو اور بجز اس کے کہ لڑنے کے لئے مڑے یا کسی دستہ کی طرف پھرے جو کوئی پشت پھیرے وہ خدا کا غضب لائے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا اور کیا برا ٹھکانہ ہے۔

.5 مسلمانوں ان کافروں کو تم نے نہیں مارا لیکن خدا نے مارا۔

.6 اور اے محمدﷺ تم نے خاک نہیں پھینکی جب تم نے پھینکی لیکن اللہ نے پھینکی تا کہ اپنی طرف سے اہل ایمان کو اچھا انعام دے۔

.7 اللہ دانا اور بینا ہے اور کافروں کے داؤ پیچ کو کمزور کرنے والا ہے اگر فتح چاہتے تھے تو فتح آ چکی۔ کافرو! اب اگر رک جاؤ تو بہتر ہے اگر تم پھر مخالفت پر آمادہ ہو گئے تو ہم پھر مسلمانوں کی مدد کریں گے۔ یاد رکھو! کہ تمہاری جمعیت کچھ مفید نہیں گو وہ کتنی ہی کثیر ہو۔ اور اللہ مومنین کے ساتھ ہے۔

.8 مسلمانوں! جب کسی دستہ فوج سے مقابلہ آن پڑے تو ثابت قدم رہو اور اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور جھگڑا نہ کرو ورنہ سست پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ مستقل مزاج رہو۔ اللہ مستقل مزاج صابرین کے ساتھ ہے۔

.9 قرآن پاک کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے عمل کو اپنا عمل قرار دیا اور اس نسبت سے مسلمانوں کے عمل کو بھی اپنا عمل قرار دیا۔ جدوجہد اور عمل کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کی دعاؤں اور مناجات کو قبول فرمایا۔ اپنی نصرت اور فرشتوں کی کمک سے مسلمانوں کو فتح یاب کیا۔عمل، دعا اور نصرت کا یہ فارمولا مسلمانوں کیلئے ہر شعبہ زندگی میں مشعل راہ ہے۔ عمل کے بغیر دعا ایک ایسا جسم ہے جس میں روح نہیں ہے۔



اللہ کے محبوب

خواجہ شمس الدین عظیمی

کتاب اللہ کے محبوبﷺمیں قرآن پاک کے تخلیقی قوانین، سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام پر اور سیرت طیبہ کے روحانی پہلو پر مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ عالی، خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ارشادات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان ارشادات پر تفکر سے انسان کے اندر موجود غیب کے عالمین اس طرح روشن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے اصل مقام اور امانت الٰہی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔

قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر اور مشاہدہ سے انسانی ذہن اور علم کو وسعت ملتی ہے اور وہ زماں و مکاں کی پابندی سے آزاد ہوتا جاتا ہے۔ صدیوں پر محیط عالمین کا سفر، چند لمحات میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس شعوری ارتقاء سے انسان کی سکت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر محیط، اپنے من میں موجود، اپنی رگ جاں سے قریب ہستی۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔

مرشد کریم کے ذریعے سالک کا تعلق سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم ہو جاتا ہے اور بے شک سیدنا حضّور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ذات اکبر، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے قائم ہے۔