Topics

حضرت ابو الفیض قلندر علی سہر وردیؒ کے مزار پر حاضری

مرشد ِ کریم کی یادوں میں سے لاہور کی فضاؤں میں ایک یاد وہ ہے جب مرشدِ کریم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اہالیانِ لاہور کے ہمراہ بڑے حضرت جی یعنی حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردیؒ کے مزار پر حاضری دی۔
مزار پر مرشدِ کریم نے پھولوں کی چادر چڑھائی۔ مراقبہ کرایا اور مراقبے کے بعد اجتماعی دعا کرائی گئی۔
دعا کے بعد مرشدِ کریم فرمانے لگے کہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردیؒ سے ملاقات بھی میری وجہ سے ہوئی تھی۔ ہُوا ایسے کہ میں حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردیؒ کی لکھی ہوئی کتاب لے کر گیا اور قلندر بابا اولیاءؒ کو دی۔ انہوں نے کتاب کو بے حد پسند فرمایا اور فرمانے لگے کہ”خواجہ صاحب! اگر ایک خاص زاویۂ نگاہ سے کسی کتاب کو پڑھا جائے تو کتاب لکھنے والے کا ذہن سامنے آجاتا ہے کہ اس نے یہ کتاب کس غرض سے اور کس نسبت سے لکھی ہے”۔
اس کے بعد کافی دیر تک مرشدِ کریم اپنے ماضی کی باتیں دہراتے رہے جنہیں ہم یہاں بیان کرنے کی حتیٰ المقدور کوشش کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ قارئین کو یہ دلچسپ تحریر ضرور پسند آئے گی۔
آخر میں مزار پر لنگر تقسیم کیا گیا۔ لنگر تقسیم کرنے کے بعد مرشدِ کریم کی مزار سے واپسی ہوئی۔
مرشدِ کریم فرمانے لگے کہ جب میری باطنی نظر کھل گئی تو اللہ تعالیٰ نے مرشدِ کریم کے صدقہ میں مجھ پر بڑا کرم کیا اور بہت رُوحانی فیض جاری ہوگیا۔
میرا ذہن شروع سے ہی مذہب میں خوف اور ڈر سے متعلق خیالات سے باغی تھا۔ میرا تو ایک ہی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا نہیں چاہئے بلکہ محبت کرنی چاہئے۔ ہمارے ہاں مولوی حضرات بندے کو خواہ مخواہ اللہ تعالیٰ سے ڈراتے رہتے ہیں۔ مجھے ان کی یہ منطق سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ یا تو ان کے خلوص میں کمی ہے اور عقیدت میں وہ جذبہ نہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے تو بندہ کیوں نہ کرے۔ میں اپنے اَندر کھلنے والی باطنی آنکھ سے مقصد کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا کہ ان کیفیات کا وارِد ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟ اور پھر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کے لئے میں مرشد کامل کی تلاش میں سرگرداں تھا۔
مرشدِ کریم فرمانے لگے کہ میں سلسلہ عالیہ چشتیہ کے ایک بزرگ حافظ صاحب کے بہت قریب تھا۔ حافظ صاحب میرے دادا حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے خلیفہ تھے اور ان کے رُوحانی ورثہ کو مجھ تک پہنچانے پر مامور کئے گئے تھے۔ حافظ صاحب نے چند وظائف تعلیم کئے اور ان کے ورد کی تلقین فرمائی۔ میں نے وظائف اور رُوحانی اسباق کا آغاز کیا۔ ان دنوں میرے معاشی حالات نہایت ابتر تھے۔ میرے شریک کار نے مجھے اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ میں رُوحانی اسباق چھوڑ دوں۔ جب میں کسی طرح راضی نہ ہوا تو ایک حکیم صاحب کو میرے پیچھے لگا دیا۔ میں ان کو بزرگ مانتا تھا۔ وہ ہمیشہ ایک بات ہی کہا کرتے تھے کہ یہ سب کام بڑھاپے میں کئے جاتے ہیں۔ تم کس چکر میں پڑ گئے ہو۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے۔ ادھر حالات اتنے خراب ہوگئے کہ روٹی کپڑا چلانا مشکل ہوگیا۔ میں نے حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور سبق پڑھنا ترک کر دیا۔
چشتیہ سلسلے کے اسباق چھوڑنے کے چھ ماہ بعد مجھے اطلاع ملی کہ حافظ صاحب وصال فرماگئے ہیں، تو میرے دل و دماغ پر گہری چوٹ لگی۔ میں اسی کرب میں مبتلا تھا کہ سہروردیہ سلسلہ کے ایک بزرگ چودھری صاحب سے نیاز حاصل ہوا۔
ان کے توسط سے حضرت ابو الفیض قلندر علی سہروردیؒ سے بھی ملاقات ہوئی جو حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے مرشد ہیں۔
ایک بار پھر کسی دوست سے ملنے ڈان اخبار کراچی کے دفتر گیا تو وہاں حضرت قلندر بابا اولیاءؒ سے ملاقات ہوگئی۔ میں ان کے حسنِ سلوک سے بے حد متأثر ہوا۔ حضرت قلندر بابا اولیاءؒ ڈان میں سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز تھے۔
حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کا اصل نام سیّد محمد عظیم برخیاؔ تھا۔ آپ سلسلۂِ عظیمیہؔ کے بانی ہیں۔ ۱۸۹۸؁ء میں قصبہ خورجہ ضلع بلند شہر (یوپی)بھارت میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے تھے۔ آپ درویش اور قلندر تھے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ سے بیعت ہونے سے پہلے ایک روز میں میکلو روڈ(کراچی) پر جا رہا تھا کہ مجھے آسمان سے آواز آئی۔”حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی کو سوا لاکھ مرتبہ درود شریف، تین لاکھ مرتبہ کلمہ طیبہ اور پانچ قرآن پڑھ کر بخش دے“۔
پھر آواز آئی․․․․․”پانچ قرآن حضرت اُوَیس قرنیؓ اور پانچ قرآن حضرت خضر ؑ کو پڑھ کر ایصالِ ثواب کرو۔“
میں نے ہاتف غیبی کی اس آواز کی تعمیل شروع کردی۔ اوقات یہ مقرر کئے….
ظہر کی نماز کے بعد سے مغرب تک کلمہ طیبہ… اور
عشاء کی نماز کے بعد سے تہجد تک درود شریف۔
جب کلمہ طیبہ تین لاکھ مرتبہ پورا ہوا تو میرے اوپر غیب منکشف ہونے لگا اور دل میں وقفہ وقفہ سے درد کی ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ وقت گزرتا رہا اور میں دیوانہ اپنے کام میں مشغول رہا۔
ایک روز بس میں بیٹھا ہوا تھا کہ میرا دل بڑا ہوتے ہوتے بھینس کے دل کتنا ہوگیا۔ اور ایک آواز کے ساتھ پھٹ گیا اور کٹے ہوئے انار کی طرح اس میں قاشیں بن گئیں۔ ان قاشوں میں سے تیز اور روشن لہریں نکلنے لگیں۔ میں نے دیکھا کہ جہاں تک یہ لہریں جا رہی ہیں مجھے گردونواح اور اطراف میں سب چیزیں نظر آرہی ہیں۔ میں نے یورپ کے بہت سے شہر، برفانی پہاڑ، کشمیر اور آسام کے پہاڑ اور زعفران کے کھیت دیکھے۔ جیسے ہی زعفران کے کھیتوں پر نظر پڑی، زعفران کی خوشبو پوری بس میں پھیل گئی۔ لوگ حیران ہو ہو کر آگے پیچھے دیکھے جارہے تھے۔ دو ایک حضرات نے کہا کسی کے پاس زعفران ہوگا۔ یا کسی نے زعفران کا سینٹ لگا رکھا ہوگا۔ میں ان تمام باتوں کو سنتا رہا اور مشاہدات میں مگن رہا۔ میں نے پہلی مرتبہ دل کی ان شعاعوں میں فرشتوں کا مشاہدہ کیا۔ ناظم آباد میں جب بس سے اترا تو حیرت کی انتہا ہی نہ رہی کہ بس سے میرے ساتھ حضرت حافظ صاحب بھی اترے اور میرے بائیں طرف خاموش چلنے لگے۔ انہیں دیکھ کر میں دہشت زدہ ہوگیا۔ حافظ صاحب نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور پھر خود اوپر اٹھے اور میرے سر کے اوپر فضا میں چلنے لگے۔ میں گھر پہنچ کر بے سدھ لیٹ گیا۔ دنیا و مافیہاکی کوئی خبر نہیں رہی اور مجھے نیند آگئی۔
اگلے روز صبح سہروردی سلسلے کا سبق پڑھ رہا تھا کہ میرے دادا، حضرت حافظ صاحب اور حاجی امدادا اللہ مہاجر مکی تشریف لائے اور تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھ کر چلے گئے۔
رات کو پھر درود شریف پڑھ رہا تھا کہ دیکھا میرے منہ سے جیسے ہی درود شریف پورا ہوتا ہے، ایک بہت ہی خوبصورت سنہرے تھال میں اسے رکھ لیا جاتا ہے اور اس کے اوپر بہت عمدہ خوان پوش ڈھک کر اسے حضور ﷺ تک پہنچایا جا رہا ہے۔ میرے گھر سے مدینہ منورہ تک فرشتوں کی ایک جماعت کھڑی ہوئی۔ جیسے ہی درود شریف ختم ہوتا ہے، وہ فرشتے میرے منہ کے سامنے گول تھال کر دیتے ہیں اور درود شریف تھال میں رکھا جاتا ہے اور وہ تھال دوسرے فرشتے کو بڑھا دیتا ہے۔ دوسرا تیسرے کو اور تیسرا چوتھے کو۔ اسی طرح فرشتوں کی یہ جماعت ایک ہاتھ سے دوسرے کو پہنچا کر دربار حضور ﷺ میں پہنچا رہی ہے اور حضور ﷺ ہاتھ لگا کر قبول فرمارہے ہیں۔ تقریباًتین گھنٹے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
میں نے دل پھٹنے اور مشاہدات کی ساری وارِدات چوہدری صاحب سے بیان کی تو چوہدری صاحب نے فرمایا۔”حافظ صاحب میرے معاملہ میں داخل دینے والے کون ہوتے ہیں؟“
پھر میرے پاس تین مرتبہ آچکے ہیں مگر میں اپنے معاملات میں کسی کا دخل پسند نہیں کرتا۔
چوہدری صاحب نے تھوڑی دیر کیلئے آنکھیں بند کیں اور ہاتھ کی انگلیوں سے اپنی آنکھوں کو زور سے دبایا اور میرا دل پھر بند ہوگیا۔ اب میں پھر اندھا تھا اور غیب نظر آنا بند ہوگیا۔
رات کو پھر حافظ صاحب تشریف لائے۔ چہرے سے زبردست جلال ٹپک رہا تھا۔ آپ نے میرے سر کے بالکل بیچ میں زور سے پھونک ماردی۔ اس پھونک کے اثر سے مَیں زمین سے اچھل پڑا اور میرا دل پھر کھل گیا۔
غصہ کی آواز میں فرمایا”اب دیکھوں گا کیسے بند کرتے ہیں“۔
جب آسمانوں میں فرشتوں کو دیکھنے لگا۔ صبح بس میں بازار جا رہا تھا کہ لسبیلہ کے پل پر جب بس چڑھی تو دیکھا کہ چوہدری صاحب بابا غلام محمد صاحب کو ساتھ لے کر آگئے۔ بابا غلام محمد صاحب نے میرے دل پر انگلی رکھ دی اور میرا دل پھر بند ہو گیا اور غیب میں کام کرنے والی نظر ختم ہوگئی۔
اب حافظ صاحب حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے پاس آئے اور ان سے فرمایا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کیا ہو رہا ہے۔ اب اس معاملہ میں، میں آپ کی مدد چاہتا ہوں۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا:”چوہدری صاحب میرے پیر بھائی ہیں۔ میں اپنے شیخ کے احترام کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتا۔“
اس افتاد کے بعد میری یہ کیفیت ہوگئی کہ مجھے ہر وقت یہ محسوس ہوتا تھا کہ میرے سر پر کئی ٹن وزن رکھا ہوا ہے۔ سڑک پر چلتے چلتے بیٹھ جاتا تھا۔ بار بار ایسا ہوتا کہ میں چکرا کر زمین پر گر جاتا تھا۔ جسم تیزی کے ساتھ لاغر ہوتا چلا گیا اور اس حد تک لاغر ہوا کہ پنڈلیوں کا گوشت خشک ہو گیا اور میں ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مجھے”سوکھے”کی بیماری ہوگئی ہے۔
چھ مہینے اسی حال میں گزر گئے۔ ایک روز میں بازار سے واپس آرہا تھا کہ میرے پیر کے اوپر سے ٹرک کا پہیہ گزر گیا اور میں ٹرک کے نیچے آتے آتے بچا۔ جی میں آیا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں ٹرک کے نیچے آکر ختم ہو جاتا۔ موت کے روٹھ جانے پر گھر آکر میں بہت رویا اور میری ہچکیاں بندھ گئیں اور میں نے اپنے آقا قلندر بابا اولیاءؒ سے عرض کیا۔”میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس دنیا سے اٹھا لے۔ میں اب بالکل زندہ نہیں رہنا چاہتا”۔
حضور نے تسلی دی اور فرمایا۔ میں حافظ صاحب سے بات کروں گا اور بڑے حضرت جی کی خدمت میں درخواست کروں گا کہ اس معاملہ کو کسی نہ کسی صورت سے حل کریں۔
روائداد طویل ہے۔ مختصراً یہ کہ سلسلہ سہروردیہ اور سلسلہ چشتیہ کے بزرگ آپس میں مل کر بیٹھے۔ حضرت چوہدری صاحب سے کہا گیا کہ اپنے اس مرید کو فارغ کردیں۔ مگر چوہدری صاحب نے فرمایا کہ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے اور میں اس کو اپنے ذہن کے مطابق تیار کرنا چاہتا ہوں۔
جب کوئی بات طے نہ ہو سکی، تو اس پر حافظ صاحب نے فرمایا۔” یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک آدمی محض اس لئے انتظار کرے کہ اسے ایک مخصوص ذہن کے مطابق تیار کیا جائے جب کہ اس کے دادا اُس کیلئے ورثہ چھوڑ گئے ہیں اور سیدنا حضور ﷺ سے اس کو منظور بھی کرایا ہے۔ اب میں اس کو عدالت عالیہ میں پیش کروں گا۔”حضرت حافظ صاحب نے حضور حسن بصری کو اپنا وکیل مقرر فرمایا اور تائید میں جن حضرات نے عدالت عالیہ میں پیش ہونا منظور فرمایا وہ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ، حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ، حضرت معروف کرخیؒ، حضرت امام موسیٰؒ، رضاؒ، حضرت امام حسینؓ اور اُوَیس قرنی ؓ تھے۔“
میں رات کے وقت درود شریف پڑھ رہا تھا۔ میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور کہا کہ چلو بڑی سرکار میں آج تمہاری پیشی ہے۔
میں نے دیکھا…. دو جگ کے سر تاج فخر انبیاء رحمۃ للعالَمینؐ تخت پر تشریف فرما ہیں۔ بائیں جانب حضرت اُوَیس قرنیؓ ایستادہ ہیں اور دائیں جانب حضرت حسن بصریؒ، حضرت جنید بغدادی ؒ، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ، حضرت معروف کرخیؒ، حضرت امام موسیٰ رضاؒ، حضرت امام حسینؓ، حضرات امام حسنؓ اوربڑے حضرت جی ہیں اور بالکل سامنے چوہدری صاحب اور میں ہوں۔
سیدنا حضور ﷺ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا۔
حضرت حسن بصریؒ صف میں سے نکل کر نگاہیں نیچی کئے ہوئے سامنے آگئے اور درود و سلام کے بعد عرض کیا۔”یا رسول اللہؐ! میرے مؤکل کے دادا نے آپؐ کی منظوری سے اپنے پوتے کیلئے ورثہ چھوڑا ہے اور اس ورثہ کو حاصل کرنے کی جو شرط انہوں نے عائد کی تھی وہ میرے مؤکل نے پوری کردی ہے اور میرے مؤکل نے سلسلہ چشتیہ میں بیعت بھی حاصل کی ہے اور اس کے شیخ نے چشتیہ، سہروردیہ، نقشبندیہ، قادریہ میں اپنے اس مرید کو بیعت کیا تھا۔ بیعت کے بعد مرید کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ تُو ان چاروں سلسلوں میں بیعت ہو گیا ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ شیخ کے انتقال کے بعد مرید سہروردیہ سلسلہ میں پھر بیعت ہوگیا۔ عرض یہ کرنا ہے کہ حضورؐ کی منظوری کے بعد جب کہ مرید نے شرط پوری کردی ہو اس کا ورثہ اسے قانوناً ملنا چاہئے۔ مگر سہروردیہ سلسلہ کا ایک فرد جو سلسلہ سہروردیہ میں مقام رکھتا ہے، اس بات پر آمادہ نہیں ہے۔”
حضورﷺ نے اپنے دائیں طرف ایستادہ بزرگوں کو دیکھا۔ سب نے تائید کی۔ پھر حضرت چوہدری صاحب کی طرف دیکھا۔ حضرت چوہدری صاحب دو قدم آگے آئے اور کہا۔”یا رسول اللہ ؐ! قانون یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی کا مرید ہوجاتا ہے تو وہ پیر کا حق بن جاتا ہے۔ مجھے قانوناً یہ حق حاصل ہے کہ میں جس طرح چاہوں اپنے مرید کی تربیت کروں اور اس قانون پر آپ کے دستخط ہیں“۔
حضور ﷺ نے پھر دائیں صف کی طرف دیکھا(جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ کوئی تائید کرتا ہے یا نہیں)۔
بڑے حضرت جی صف میں باہر آگئے اور حضرت چوہدری صاحب کے ساتھ جا کھڑے ہوئے اور حضورﷺ نے چوہدری صاحب کے حق میں فیصہ دے کر دربار برخاست فرمادیا۔
میرے حالات اب مزید دگرگوں ہوگئے۔ ہر وقت سینہ سے دھواں اٹھتا ہوا محسوس ہوتا۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہوگئی کہ ہر شب بلا ناغہ بد خوابی ہوجاتی۔ جس سے رہی سہی جان بھی جواب دے گئی۔ ساتھ ہی پیچش میں بھی مبتلا ہوگیا۔ کھانا کھاتے ہی اجابت کی ضرورت ہوجاتی۔ نیند کوسوں دُور۔ ہر وقت یاس اور نامیدی کا غلبہ۔ لوگ ہنستے تو میری آنکھوں میں آنسوآجاتے۔ میں سوچا کرتا کیا دنیا میں ہنسی بھی کوئی شے ہے۔ مجھے چپ لگ گئی۔ دل ہر وقت اداس اور بے چین رہتا۔ دنیا کی ہر چیز میرے لئے ناخوشی اور عذاب کا پہلو رکھتی۔ رات کو اندھیرے میں اٹھ کر روتا۔ مر جانے کی دعائیں مانگتا اور سوچتا کہ موت بھی مجھ سے کنارہ کر گئی ہے۔ معمولی سے شور سے دل دہل جاتا۔ کوئی زور سے بات کرتا تو دماغ پر ہتھوڑے کی ضرب پڑتی۔ اس نشتر زدہ زندگی میں تین سال گزر گئے۔ ایک روز میں نے حضور قلندر بابا اولیاءؒ سے درخواست کی کہ وہ اس سلسلے میں میری مدد فرمائیں تا کہ مَیں اس تکلیف سے نجات پا سکوں۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا دیکھیں اللہ کو کیا منظور ہے۔ اس کے چند روز بعد ایک روز تہجد کی نماز کے بعد میں نے درود خضری پڑھنے کے دوران خود کو سرکارِ دو جہاں سرورِ کائنات حضور ﷺ کے دربار اقدس میں حاضر پایا اور مشاہدہ کیا کہ حضور ﷺ تخت پر تشریف فرما ہیں۔ میں نے حضور ﷺ کے تخت کے سامنے دو زانو بیٹھ کر درخواست کی۔
”یا رسول اللہ ؐ! اے اللہ کے حبیب ؐ، اے باعث تخلیقِ کائناتؐ، محبوب پروردگارؐ، رحمت اللعالَمینؐ، جن و انس اور فرشتوں کے آقاؐ، حامل کون و مکاںؐ، مقام محمودؐ کے مکین، اللہ تعالیٰ کے ہم نشینؐ، علم ِ ذات کے امینؐ، خیر البشرؐ، میرے آقاؐ! مجھے علم لدنی عطا فرمادیجئے۔ میرے ماں باپ آپؐ پر نثار ․․․․․ آپ کو حضرت اُوَیس قرنی ؓ کا واسطہ، حضرت ابو ذر غفاری ؓ کا واسطہ، آپ ؐ کو آپ ؐ کے رفیق حضرت ابوبکرؓ کا واسطہ، آپ ؐ کو حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کا واسطہ، آپؐ کو حضرت بی بی فاطمہؓ، علیؓ اور حسینؓ کا واسطہ اپنے اس غلام پر نظر کرم فرما دیجئے!میرے آقا ! آپ ؐ کو قرآن کریم کا واسطہ، آپؐ کو اسم اعظم کا واسطہ، آپ ؐ کو تمام پیغمبروں کا واسطہ، آپ ؐ کے جدِّ امجد حضرت ابراہیمؑ کا واسطہ اور ان کے ایثار کا واسطہ! میرے آقاؐ! میں آپ ؐ کے در کا بھکاری ہوں۔ آپ ؐ کے سِوا کون ہے جس کے سامنے دست سوال دراز کروں۔ میں اس وقت تک در سے نہیں جاؤں گا جب تک آپ ؐ میرا دامنِ مراد نہیں بھر دیں گے۔
آقاؐ! میں غلام ہوں، غلام زادہ ہوں۔ میرے جد امجد حضرت ابو ایوب انصاریؓ پر آپؐ کی خصوصی رحمت و شفقت کا واسطہ مجھے نواز دیجئے! “
دریائے رحمت میں جوش آ گیا۔ فرمایا کوئی ہے؟
دیکھا کہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ دربار میں آکر مودٔب ایستادہ ہیں…. اس طرح جیسے نماز میں نیت باندھے کھڑے ہوں۔ نہایت ادب و احترام کے ساتھ عرض کیا۔ یا رسول اللہ ؐ! میں آپ کا غلام حاضر ہوں۔
حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام نے ارشاد فرمایا۔ تم اس کو کس رشتہ سے وراثت دینا چاہتے ہو؟
حضور قبلہ نے فرمایا۔ اس کی والدہ میرے بہن ہیں۔
حضور ﷺ نے تبسم فرمایا اور ارشاد ہوا۔”خواجہ ایوب انصاریؓ کے بیٹے ہم نے تجھے قبول کیا”۔ میں حضورقلندر بابا اولیاءؒ کے پاس ۱۶ سال قیام پذیر رہا۔ دن رات کے اس ساتھ میں قلندر بابا اولیاءؒ نے تربیت کا فریضہ بطریقِ احسن پورا فرمایا۔ تربیت کے مراحل پورے ہونے پر حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے علم لدنی اور اپنا ذہن منتقل فرما دیا۔

Topics


خطبات لاہور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اِنتساب

اُس جبلِ نور کے نام…..

جہاں سےمُتجلّیٰ ہونے والے نورِ ہدایت نے نوعِ انسانی کی ہرمعاملے میں راہنمائی فرما کرقلوب کی بنجر زمین کو معرفتِ اِلٰہیہ سےحیات عاو کرنے کا نظام دیا