Topics
اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں:
’’اور لوگوں پر خدا کا یہ حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ خدا سارے جہاں والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘
’’اور نہ ان لوگوں کو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں احترام والے گھر کی طرف جا رہے ہیں۔‘‘
’’حج اور عمرے کو محض خدا کی خوشنودی کے لئے پورا کرو۔‘‘
’’اور سفر حج کے لئے زاد راہ ساتھ لو اور سب سے بہتر زاد راہ تقویٰ ہے۔‘‘
’’وَلَاجِدَالَ فِی الْحَجْ" اور لڑائی جھگڑے کی باتیں نہ ہوں۔‘‘
’’پھر جب تم حج کے تمام ارکان ادا کر چکو تو جس طرح پہلے اپنے آباؤ اجداد کا ذکر کرتے تھے اسی طرح اب خدا کا ذکر کرو بلکہ اس سے بڑھ کر۔‘‘
حج کا سفر کرنے والی مسافر خدا کا خصوصی مہمان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حج کے ذریعے دونوں جہان کی سعادت نصیب ہوتی ہے اور سعید لوگ کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ حج ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے انسان خدا کی نافرمانی سے بچتا ہے۔ بندہ حجر اسود پر ہاتھ رکھ کر اس عہد کی تجدید کرتا ہے جو اس نے عالم ارواح میں اپنے رب کے سامنے ’’قالو بلیٰ‘‘ کہہ کر اپنی بندگی اور خالق کے سامنے مخلوق ہونے کا اقرار کیا تھا۔ بندہ دوران حج ہر اس بات پر عمل کرتا ہے جو اس کے لئے سرمایۂ آخرت ہے۔ مخلوق کے اژدہام میں، سفر کی صعوبتیں اور زخموں میں، قدم قدم پرٹھیس لگنے کے باوجود فراخدلی اور ایثار سے کام لیتا ہے۔ ہر ایک کے ساتھ عفو و درگزر اور فیاضی کا برتاؤ کرتا ہے اور اس سے برملا اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی پابندی ہوتی ہے ’’وَلَاجِدَالَ فِی الْحَجْ" ۔
حج کے زمانے میں ہوائی باتوں سے بچنے کی ہدایت اور نفس و شیطان سے خود کو محفوظ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اگر آپ کے ساتھ شوہر یا بیوی ہم سفر ہے تو نہ صرف یہ کہ مخصوص تعلقات قائم نہ کریں بلکہ ایسی باتوں سے بھی بچتے رہیں جو شہوانی جذبات کو برانگیختہ کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ قادر مطلق رحیم و غفور رب العالمین نے فرمایا ہے:’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقررہ مہینوں میں حج کی نیت کرے اسے خبردار رہنا چاہئے کہ حج کے دوران شہوانی باتیں نہ ہوں۔‘‘
احرام باندھنے کے بعد، ہر نماز کے بعد، ہر بلندی پر چڑھتے وقت اور ہر پستی کی طرف اترتے وقت اور ہر قافلے سے ملتے وقت اور ہر صبح کو نیند سے بیدار ہو کر حاجی حضرات تلبیہ پڑھتے ہیں۔آیئے ہم بھی ان کے ساتھ شریک ہو کر اپنے اللہ کے حضور حاضر ہوں۔
لبَّيْکَ، الَلّٰهُمَّ لَبَّيْکَ، لَبَّيْکَ لَا شَرِيْکَ لَکَ لَبَّيْکَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْکَ، لَا شَرِيْکَ لَکَ.
میں حاضر ہوں، خدایا میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک ساری تعریف تیرے ہی لئے ہے، نعمت تیری ہی ہے، ساری بادشاہی تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔