Topics

جنات کی غذا

حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے لوگوں نے جنات کی غذا کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنات گوشت کے بجائے ہڈی شوق سے کھاتے ہیں۔ ان کے لئے ہڈی گوشت کے قائم مقام ہے اور جانوروں کا فضلہ لیدھ اور مینگنی وغیرہ جنات کے جانوروں کا چارا ہے۔ ان کے لئے فضلہ سبز گھاس بن جاتی ہے۔

ایک مرتبہ جنات کا قاصد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور آپﷺ کو قرآن سنایا۔ پھر انہوں نے کھانے کے بارے میں پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ذبیحہ ہڈی تمہارے لئے پُر گوشت کر دی جائے گی۔

مسلمان جنات:

جنات نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی قرآن سنا اور ایمان لائے اور کفر و شرک سے توبہ کی۔ جنات احکامات شرعیہ کے مکلف ہیں بہت سی آیات میں ان کے مکلف ہونے کا ذکر ہے۔

جنات کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہے:

’’اور جب کہ ہم جنات کی ایک جماعت کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف لے آئے جو قرآن سننے لگے تھے غرض کہ جب وہ لوگ ان کے پاس آ پہنچے تو کہنے لگے خاموش رہو پھر جب قرآن پڑھا جا چکا تو وہ لوگ اپنی قوم کے پاس خبر پہنچانے گئے اور کہا! اے بھائیوں ہم ایک کتاب سن کر آئے ہیں جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد نازل کی گئی ہے جو پہلے نازل ہونے والی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے حق اور راہ راست کی طرف راہ نمائی کرتی ہے۔ اے بھائیو! اللہ کی طرف بلانے والے کا کہا مانو اور اس پر ایمان لے آؤ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تم کو درد ناک عذاب سے محفوظ رکھے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے کا کہنا نہ مانے گا وہ زمین پر خوش اور مطمئن نہیں رہ سکتا اور خدا کے سوا کوئی اس کا حامی نہیں ہو گا ایسے لوگ صریح گمراہی میں ہیں‘‘۔

(سورۂ احقاف: آیت نمبر۲۹ تا ۳۲)

جب یہ واقعہ پیش آیا تو منجانب اللہ آپ کو حکم ملا کہ اسے لوگوں کو سنا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سورت پڑھ کر سنائی تا کہ لوگ جان سکیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جن و انس سب کے لئے مبعوث کئے گئے ہیں۔ تمام انسانوں اور تمام جنات پر فرض ہے کہ اللہ پر ایمان لائیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم طائف سے مکہ واپس آ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور کے باغ کے پاس قیام فرمایا۔ تہجد کی نفلوں میں قرآن پاک تلاوت کر رہے تھے کہ جنات نے قرآن حکیم سنا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آئے۔

درخت کی گواہی:

مکہ میں ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص جنات سے ملاقات کرنا چاہتا ہے وہ آج رات میرے پاس آ جائے۔ ابن مسعودؓ کے سوا اور کوئی نہیں آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم انہیں ساتھ لے کر مکہ کی ایک اونچی پہاڑی پر پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حصار کھینچ کر فرمایا کہ تم حصار سے باہر نہ آنا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک جگہ کھڑے ہو کر قرآن پڑھنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد ایک جماعت نے آپ کو اس طرح گھیر لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے بیچ میں چھپ گئے۔ جنات کے گروہ نے کہا کہ تمہارے پیغمبر ہونے کی کون گواہی دیتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ درخت گواہی دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس درخت سے پوچھا۔ میں کون ہوں؟ درخت نے گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پیغمبر ہیں۔ اللہ کے فرستادہ بندے اور آخری نبی ہیں۔ یہ دیکھ کر سارے جنات ایمان لے آئے۔



احسان وتصوف

خواجہ شمس الدین عظیمی

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب "احسان وتصوف" بہاءالدین زکریا یونیورسٹی شعبہء علوم اسلامیہ M.Aکے نصاب میں داخل ہے ۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب Faculityشعبہ علوم اسلامیہ، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان کے لیکچرار ہیں۔احسان وتصوف کے پیش لفظ میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلرجناب چوہدری غلام مصطفیٰ صاحب رقمطراز ہیں 

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔

خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تصنیف ’احسان و تصوف‘ کا مسودہ مجھے کنور ایم طارق، انچارج مراقبہ ہال ملتان نے مطالعہ کے لئے دیا اور میں نے اسے تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پڑھا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کا نام موضوع کے حوالہ سے باعث احترام ہے۔ نوع انسانی کے اندر بے چینی اور بے سکونی ختم کرنے، انہیں سکون اور تحمل کی دولت سے بہرور کرنے اور روحانی قدروں کے فروغ اور ترویج کیلئے ان کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ایک دنیا ہے جسے آپ نے راہِ خدا کا مسافر بنا دیا۔ وہ سکون کی دولت گھر گھر بانٹنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیر نظر کتاب تصوف پر لکھی گئی کتابوں میں ایک منفرد مستند کتاب ہے۔ جس خوبصورت اور عام فہم انداز میں تصوف کی تعریف کی گئی ہے اور عالمین اور زمان و مکان کے سربستہ رازوں سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔ یہ صرف عظیمی صاحب ہی کا منفرد انداز اور جداگانہ اسلوب بیاں ہے۔ عظیمی صاحب نے موجودہ دور کے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے تصوف کو جدید سائنٹیفک انداز میں بیان کیا ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ عبادات مثلاً نماز، روزہ اور حج کا تصوف سے تعلق، ظاہری اور باطنی علوم میں فرق، ذکر و فکر کی اہمیت، انسانی دماغ کی وسعت اور عالم اعراف کا ادراک جیسے ہمہ گیر اور پر اسرار موضوعات کو سادہ اسلوب میں اور بڑے دلنشیں پیرائے میں بیان کیا جائے تا کہ قاری کے ذہن پر بار نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے۔

میرے لئے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ کتاب بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ کے توسط سے شائع ہو رہی ہے۔ میں عظیمی صاحب کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے طلباء کی ہدایت اور راہنمائی اور علمی تشنگی کو بجھانے کیلئے یہ کتاب تحریر فرمائی۔ میں عظیمی صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے یہ کتاب عامتہ المسلمین اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے خواہشمند افراد سب کیلئے یکساں مفید ثابت ہو، معاشرہ میں تصوف کا صحیح عکس اجاگر ہو اور الٰہی تعلیمات کو اپنا کر ہم سب دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔ (آمین)

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ چودھری

وائس چانسلر

بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان


انتساب


کائنات میں پہلے 

صوفی

حضرت آدم علیہ السلام

کے نام



خلاصہ


ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے

اور روح ازل میں اللہ کو دیکھ چکی ہے

جو بندہ اپنی روح سے واقف ہو جاتا ہے

وہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھ لیتا ہے