Topics

اڑن کھٹولے

زندگی اور زندگی سے متعلق جذبات و احساسات ، واردات و کیفیات ،تصورات و خیالات زندگی سے متعلق تمام دلچسپیاں اس وقت تک قائم ہیں جب تک سانس کی آمدو رفت جا ری ہے۔ زندگی کادارومدار سانس پر ہے ۔سانس کی طر زوں پر اگر غور کیا جا ئے تو معلوم ہو تا ہے کہ ہر ذی رُوح میں سانس کا نظام قائم و دائم  ہے لیکن ہر نوع میں سانس کے وقفے متعین ہیں مثلا یہ کہ اگرآدمی کے اند رسانس کے ذریعے دل کی حرکت متعینہ وقت میں 72  ہے تو بکر ی میں اس سے مختلف ہو گی۔چیونٹی میں اس سے بالکل مختلف ہو گی ۔

کو ئی ایسا آلہ ایجاد کر لیا جا ئے کہ جس میں درخت کے سانس کی پیما ئش ہو سکے اس کے سانس کی دھڑکن بو لنے والی مخلوق سے مختلف ہو گی ۔ اور اگر ہم  کو ئی ایسا آلہ ایجاد کرلیں جس سے پہاڑ کی نبض کی حرکت ریکارڈ کر یں تو وہ درخت کے اندر کام کر نے والی نبض کی حرکت سے مختلف ہو گی ۔ ہرشخص یہ جا نتا ہے کہ ایک سانس آتا ہے، ایک سانس جا تا ہے یعنی ایک سانس اندر لیتے ہیں اور ایک سانس با ہر نکالتے ہیں ۔ یہ بات بھی ہم سب کے  سامنے ہے کہ پر سکون حالت میں سانس میں ایک خاص قسم کا توازن ہو تا ہے۔ اس کے بر عکس پر یشانی ، غم و اضطراب میں سانس میں ایک خاص قسم کا توازن ہو تاہے ۔ مثلاً اگر کو ئی آدمی ڈر جا ئے تو اس کے دل کی حرکت تیز اور بہت تیز ہوجا تی ہے ۔ اگر غور کریں تو نظر آئے گا کہ دل کی حرکت کے ساتھ سانس کی حرکت بھی تیز ہو جا تی ہے ، سانس کے دو ررخ ہیں ایک رخ یہ ہے کہ ہم سانس اند ر لیتے ہیں یعنی سانس کے ذریعے آکسیجن جذب کر تے ہیں اور دو سرا رخ یہ ہے کہ ہم سانس با ہر نکالتے ہیں یعنی کا ربن ڈائی آکسائید خارج کر تے ہیں ۔

یہاں پر بہت غورطلب نکتہ یہ ہے کہ جب ہم سانس لیتے ہیں تو کو ئی چیز اندر جاکر جلتی ہے یعنی فضا میں جو آکسیجن پھیلی ہو ئی ہے وہ سانس کے ذریعے اندر جا کر جلتی ہے، جس گا ڑی کے اندر پٹرول جلتا ہے ۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جلا ہوا فضلہ با ہر نکل جا تا ہے ۔یہ سلسلہ پیدا ئش سے موت تک بر قرار رہتا ہے ۔اب ہم اس کو رُوحانیت کی طر ز پر بیان کر تے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطا بق پر چیز اللہ تعالیٰ کی طر ف سے آتی ہے ۔ اور اللہ کی طر ف ہی لوٹ جا تی ہے ۔ہم جب اندر سانس لیتے ہیں تو ہمارا رخ با طن INNERکی طر ف ہو تا ہے ۔ ہم جب سانس با ہر نکالتے ہیں تو ہماری تمام دلچسپیاں دنیا، دنیا میں پھیلی ہو ئی چیزوں اور اپنے گو شت پو ست کے حواس کے ساتھ قائم رہتی ہے ۔حواس کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ وہ ہے جو ہمیں زمان و مکانTIME AND SPACE میں قید کر تا ہے ۔دو سرا رخ وہ ہے جو ہمیں زمان و مکان سے آزاد کر تا ہے ۔نیند کی حالت میں ہمارے اوپرغالب رہتا ہے یعنی جب ہم سو جا تے ہیں تو ہمارے شعوری حواس کی نفی ہو جا تی ہے اور ہمارے اوپر سے زمان و مکانTIME AND SPACE  کی گر فت ٹوٹ جا تی ہے اور جب ہم بیدار ہو تے ہیں تو زمان و مکانTIME AND SPACE عارضی طور پر  ہم سے الگ ہو جا تے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطا بق خواب اور بیداری  زنگی  کے دو رخ ہیں ۔یعنی انسان کی زند گی دو رخ یا دوحواس سے مر کب ہے ۔ایک کانام دن یابیداری ہے اور دو سرے کا نام خواب یارات ہے ۔رات کے حواس میں ہر ذی رو ح مخلوقTIME AND SPACE  سے آزاد ہو جاتی ہے ۔ دن کے حواس میں ہر ذی رو ح مخلوق TIME AND SPACE  کے حواس میں قید ہو جاتی ہے زندگی کا قیام سانس کے اوپر ہے اور سانس کے دو رخ ہیں ۔ ایک رخ یہ ہے سانسہم اند ر لیتے ہیں اور دو سرا رخ یہ ہے کہ ہم سانس با ہر نکالتے ہیں۔ سانس کا اندر جا نا ،ہمیں ہماری روح سے قریب کر دیتا ہے اور سانس کا با ہر آنا ہمیں اس حواس سے قریب کرتا ہے جو حواس ہمیں رُوح کی معرفت سے دور کر تے ہیں ۔جب ہم آنکھیں بند کر کے یا کھلی آنکھوں سے کسی طرف پوری یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہو تے ہیں تو سانس اندر لینے کا وقفہ زیادہ ہو جا تا ہے یعنی ہماری شعوری توجہ رو ح کی طر ف ہو جا تی ہے ۔ 

تصوف کے اوپر اب تک جتنی کتا بیں لکھی گئی ہیں ان میں رو حانی علوم کا تذکرہ تو کیا گیا ہے لیکن اس  علم کو ایک اور ایک دو، اور دواور دو چار کی طر ح عام نہیں کیا گیا بہت سے رموز اور نکات بیان کئے گئے ہیں ۔ پھر بھی رموز اور نکات  پر دے میں اس لیے ہیں کہ ان رمو زو نکا ت کو  وہی حضرات سمجھ سکتے ہیں جو منزل رسیدہ ہیں ۔یاجو حضرات راہ سلوک میں سفر کر چکے ہیں ۔

ہمارے اسلاف نے یہ بھی فر مایا رو حانی علومچو نکہ منتقل ہو تے ہیں اس لئے ان کو محفوظ رہنا چا ہیے  اور ان کی  حفا ظت کر نی  چا ہیے یہی وجہ ہے کہ ان  علو م کانام علم ِسینہ رکھ دیا گیا ۔اسلاف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ روحانی علوم حاصل ہو نے کے بعد ان کے نتا ئج (مافوق الفطرت باتوں ) کو چھپا لینا چا ہئے ایسا کیوں ہوا ؟؟ ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسانوں کے اندر سو چنے سمجھنے اور علم حاصل کر نے کی صلا حیت اتنی نہیں تھی جتنی صلا حیت آج موجود ہے ۔ سائنس کے اس تر قی یا فتہ دور سے پہلے دور دراز آوازوں کا پہنچنا کرامت سمجھا جا تا تھا ۔لیکن آج سائنس دانوں نے آواز کا طول  موجWAVE LENGTH  دریافت کر لیاہے ۔ خیالات کا ایک جگہ سے دو سری جگہ منتقل ہو نا بھی کرامت(ما فو ق الفطرت ) بیان کیا جا تا ہے ۔

آج کی دنیا میں ہزاروں میل کے فا صلے پر پو ری کی پو ری تصویر منتقل ہو جا تی ہے ۔زیادہ عرصہ نہیں پچاس سال پہلے لو گوں سے یہ کہا جا تا تھا کہ آدمی روشنیوں کا بنا ہوا ہے تو لوگ مذاق اڑا تے تھے اور آج سائنس نے یہ  ثا بت کر  دیا ہے کہ آدمی لہروں سے مر کب ہے نہ صرف انہوں نے یہ بات بتا دی کہ آدمی لہروں سے مر کب ہے ،وہ آدمی کی ایک جگہ سے گزرنے کے بعد بھی تصویر لیتے ہیں ۔

پہلے زمانے میں دادی اور نانی بچوں کو اڑن کٹھولے کے قصے سنا یا کر تی تھیں ایک اڑن کھٹولا تھااس پر شہزادہ اور شہزادی بیٹھے اور اڑ گئے ۔دادی اور نانی کے وہی اڑان کھٹولے آج ہمارے سامنے موجود ہیں۔ نہ صرف یہ موجود ہیں ہم اس پر بیٹھ کر اپنی مر ضی اور منشاہ کے مطا بق سفر کر تے ہیں ۔

ان تمام مثالوں سے یہ بتا یا مقصود ہے کہ سائنس کی تر قی سے پہلے نو ع انسانی کی صلا حیت اتنی نہیں تھی کہ روحانی رموز نکات اس کی سمجھ میں آتے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارےبزرگوں اور اسلاف نے پہلے چند لوگوں کا انتخاب کیا پھر ان کو وہ علوم منتقل کر دئیے لیکن آج کے دور میں انسان کی دما غی صلا حیت اور  سکت، فہم اور تفکر اتنا زیادہ طا قت ور ہے کہ جو چیزیں پہلے کشف و کرامات کے دائرے میں آتی تھیں آج وہی چیزیں انسان کی عام زندگی میں داخل ہیں ۔ جیسے جیسے علوم سے انسان کی سکت بڑھ گئی بڑھتی گئی، شعور طاقتورہوگیا ۔ ذہانت میں اضافہ ہوا ۔ گہری باتوں کو سمجھنے اور جاننے کی سکت بڑھی ۔ 

سائنس کی ترقی سے یہ  بہت بڑا فائدہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے شعور کی طاقت بڑھی اسی مناسبت سے آدمی کے اندر یقین کی طا قت کمزور ہو تی چلی گئی ۔ 

یقین کی طا قت کمزور ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ سے دور ہو گیا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سائنس کی تر قی کا مطمح نظر زیادہ تر دنیا وی آرام و آسائش کا حصول ہے ۔ چو ں کہ دنیا خود بے یقینی کا سمبلSYMBOL اور فکشن FICTION ہے اور مفرو ضہ حواس کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔اس لئے یہ تر قی بھی ہمارے لئے عذا ب بن گئی اگر اس تر قی کی بنیاد ظاہر اسباب کے ساتھ ما ورا ئی صلا حیت ہو تی تو یقین کمزورہو نے کے بجا ئے طاقتور ہو تا. لیکن اس کے با وجود سائنسی علوم کے پھیلا ؤ سے بہر حال اتنا زیادہ فا ئدہ ہوا ہے کہ ہمارے اندر ایسے علوم حاصل کر نے کی صلاحیت کا ذوق پید ا ہوا جو ہمیں رو حانیت سے قریب کر تے ہیں ۔ 

اب سے پچاس سال پہلے یا سو سال پہلے جو چیز پچاس ، پچاس سو سو سال کی ریاضت سے حاصل ہو تی تھی اب وہی چیز ارادے یقین مستحکم ہونے سے چند مہینوں اور چند سالوں میں حاصل ہو جا تی ہے ۔ 


آواز دوست

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ کےکرم،سیدناحضورعلیہ الصلواۃوالسلام کی رحمت اورحضورقلندربابااولیاءکی نسبت سےعظیمی صاحب ۲۸۷ سےزائدموضوعات پرطبع آزمائی کرچکےہیں ۔ ہرعنوان اس بات کی تشریح ہےکہ انسان اورحیوانات میں فرق یہ ہےکہ انسان اطلاعات (خیالات) اور مصدر اطلاعات سے وقوف حاصل کرسکتاہےجبکہ حیوانات یاکائنات میں موجوددوسری کوئی مخلوقات علم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ہے۔کتاب آوازدوست،ماہانہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات میں شامل کالم آوازدوست ( دسمبر ۱۹۷۸ءتادسمبر ۱۹۸۹ء ) میں سےمنتخب شدہ کالمزکامجموعہ ہے

انتساب
ان روشن ضمیر دوستوں کے نام جنہوں نے میری آواز پر روحانی مشن کے لئے خود کو وقف کردیا۔