Topics

اونگھ

’’کیا یہ لوگ کائنات، ارض و سما اور دیگر مخلوق پر غور نہیں کرتے؟ شاید ان کی موت قریب آ گئی ہے۔‘‘ (اعراف)

اس نیلی فضا میں ہمارے سورج سے لاکھوں گنا بڑے بے شمار سورج نہایت تیزی سے تیر رہے ہیں۔ ہمارا سورج کائنات کے بے شمار شمسی نظاموں کے سامنے محض ایک ذرہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود اس ساری کائنات پر انسان کو حکمران بنایا گیا ہے۔

’’ہم نے انسان کو اشرف بنایا۔‘‘ (بنی اسرائیل)

عالم رنگ و بو میں جتنی بھی مخلوق ہے وہ سب آپس میں ایک برادری ہے۔

کہکشانی سیارے ہوں یا ان سیاروں میں بسنے والی نوعیں یا نوعوں میں الگ الگ افراد ہوں، سب کے اندر ایک ہی خون دوڑ رہا ہے۔ سب کی پیدائش ایک ہی فارمولے کے تحت عمل میں آ رہی ہے۔ سمندر، پہاڑ، آفتاب و نجوم سب انسان کے بھائی ہیں۔

’’اللہ وہ ہے جس نے ہمیں ایک نفس سے پیدا کیا۔‘‘ (اعراف)

دنیا میں کوئی آدمی اگر اس کے اندر ذرا سا بھی شعور ہے، یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کائنات عناصر کی اتفاقیہ آمیزش سے وجود میں آگئی ہے۔ اس لئے کائنات میں اتفاق نامی کسی چیز کا وجود ہی نہیں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ نہر نشیب میں بہنے کی بجائے اوپر کی سطح پر بہنے لگے۔ کیا کبھی کسی نے آبشار کو نیچے گرنے کے بجائے اوپر کی طرف اڑتے ہوئے دیکھا ہے؟

ہم روزانہ پھل کھاتے ہیں۔ گندم کا پسا ہوا آٹا کھاتے ہیں۔ دماغ کے اندر موجود ان خلیوں کو حرکت دے کر سوچیئے جو بصیرت بناتے ہیں۔ ہر بیج اپنے کنبہ و برادری کا ایک محفوظ گھر ہے۔ اس گھر میں درخت کے کنبہ سے متعلق گھر کا پورا نقشہ، گھر کا طول و عرض، پتے، پھول اور پھل اور شاخیں سب موجود ہیں۔ یہ چھوٹا سا بیج زمین، ہوا اور سورج سے غذا اور حرارت حاصل کر کے پورا درخت بن جاتا ہے۔ جس طرح درخت کے ہر بیج میں درخت کا پورا حدود اربعہ اور گزری ہوئی اور آنے والی نسلیں محفوظ ہیں، اسی طرح اس ساری کائنات کا پروگرام، ماضی اور مستقبل اللہ کے دماغ میں محفوظ ہے۔

’’ذرہ یا ذرہ سے کم و بیش کوئی زمینی یا آسمانی چیز ایسی نہیں جو کتاب مبین میں نہ ہو یعنی علم الٰہی اور اللہ کے ذہن میں موجود نہ ہو۔‘‘

 (سورہ سبا)

ہم جب گرد و پیش کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ کوئی طاقت ہے جس کے احاطۂ قدرت میں ہر چیز زندہ اور متحرک ہے۔ ہر چیز کے اوپر ایک ہالہ (AURA) ہے جس نے جسم کو سنبھالا ہوا ہے۔ یہ ہالہ کہیں سبز ہے، کہیں سے سرخ اور کہیں سے کچھ اور رنگ ہے۔ اس ہالہ کے اوپر ایک اور ہالہ ہے جو رنگ سے ماورا ہے۔ ہر چند کہ اس غیر مرئی طاقت کو آنکھ نہیں دیکھ سکتی لیکن یہ یقیناً موجود ہے۔

’’اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے سب کا تھامنے والا نہیں پکڑ سکتی اس کو اونگھ اور نہ نیند۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، ایسا کون ہے جو سفارش لائے اس کے پاس مگر اس کی اجازت سے۔ جانتا ہے جو کچھ خلقت کے روبرو ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے، وہ سب احاطہ نہیں کر سکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہ چاہے ، وسعت ہے اس کی کرسی میں تمام آسمانوں اور زمین کی اور گراں نہیں اس کو تھامنا ان کا اور وہی ہے سب سے برتر عظمت والا۔‘‘ (بقرہ)

’’اور کیا نہیں دیکھا ان منکروں نے کہ آسمان اور زمین منہ بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔ اور بنائی ہم نے پانی سے ہر ایک چیز جس میں جان ہے، پھر کیا یقین نہیں کرتے اور رکھ دیئے ہم نے زمین میں بھاری بوجھ، کبھی ان کو لے کر جھک پڑے اور رکھیں اس میں کشادہ راہیں تا کہ وہ راہ پا لیں اور بنایا ہم نے آسمان کو چھت محفوظ اور وہ آسمان کی نشانیوں کو دھیان میں نہیں لاتے اور وہ ہی ہے جس نے بنائے رات اور دن اور سورج اور چاند۔ سب اپنے اپنے گھر میں پھرتے ہیں۔ (الانبیاء)


Topics


تجلیات

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔