Topics

اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں خطاب

جون ۲۰۰۲ء میں خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کو اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں خطاب کیلئے مدعو کیا گیا۔ اوریئنٹل کالج کے سینٹ ہال میں ۲۰۰ سے زائد طلباء و طالبات نے آپ کا یہ لیکچر اٹینڈ کیا۔ قبل ازیں صدر شعبہ فارسی اور مشیر برائے امور طلبہ معین نظامی نے عظیمی صاحب کا پُرتپاک استقبال کیا۔ نگران مراقبہ ہال لاہور میں مشتاق احمد عظیمی صاحب بھی ہمراہ تھے۔ نظامت کے فرائض شعبہ اردو کی طالبہ امبر اصغر نے انجام دئیے۔ عظیمی صاحب کے فکر انگیز لیکچر کے بعد حاضرین نے مختلف سوالات بھی کئے جن کے عظیمی صاحب نے تسلی بخش جوابات دئیے۔ آخر میں معین نظامی صاحب نے عظیمی صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ ایوانِ اساتذہ میں چائے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں ڈاکٹر سلیم مظہر، شکیل احمد، ڈاکٹر مظہر معین، ڈاکٹر دوست محمد شاکر، ڈاکٹر قمر، ڈاکٹر فخر الحق نوری بھی شریک ہوئے۔

!سورۃ فاتحہ کی تلاوت سے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے الشیخ عظیمیؔ صاحب نے فرمایا:

محترم اساتذہ کرام اور حاضرینِ محفل، طلبا ء و طالبات
السّلام علیکم!


بلاشبہ میرے لئے یہ انتہائی سعادت کی بات ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے میری اتنی پذیرائی ہوئی اور لوگ مجھے سننے کیلئے تشریف لائے۔ اس بات پر میں اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔ یہ سب میرے اوپر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم، سیدنا حضور نبیٔ کریم علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کے طفیل اور میرے مرشدِ کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی خصوصی نسبت کے تحت ہے۔ اللہ تعالیٰ میری نسبت سے آپ سب کو بھی مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
جب سے یہ دنیا بنی․․․․․ اور جب سے اس دنیا میں آدم و حوّا پیدا ہوئے․․․․․ اس وقت سے ایک ہی کہانی چلی آرہی ہے․․․․․ اور جب تک یہ دنیا قائم ہے، ایک ہی کہانی لوگ بیان کرتے رہیں گے․․․․․ ایک ہی لکیر کو پیٹتے رہیں گے اور دنیا ختم ہوجائے گی․․․․․
یہاں نیا کچھ بھی نہیں ہے․․․․․ آپ لاکھ کہیں کہ یہاں سب کچھ نیا ہے․․․․․
کیا نیا ہے؟․․․․․
جب دنیا بنی اور دنیا میں آدم و حوّا کی پیدائش ہوئی․․․․․ تو اُس دنیا میں آدم و حوّا مَوجود تھے․․․․․ آج اُن کی اولاد آدم و حوّا کی شکل میں زمین پر مَوجود ہے․․․․․
جس طرح اماں حوّا ماں بنی تھیں․․․․․ اسی طرح حوّا کی کتنی بیٹیاں مائیں بن چکی ہیں، بن رہی ہیں اور بنتی رہیں گی․․․․․ اور اسی طرح آدم کی پیدائش سے لے کر آج تک انسانی شماریات سے بھی زیادہ تعداد میں آدم کے بیٹے باپ پن چکے ہیں اور جب تک قیامت نہیں آجاتی یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا․․․․․
اماں حوّا نے روٹی کھائی اور آج تک حوّا کی ہر بیٹی روٹی کھا رہی ہے․․․․․ ابا آدم نے پانی پیا تو آدم کا ہر بیٹا پانی سے ہی اپنی پیاس بجھاتا ہے․․․․․
یہاں کوئی بات نئی نہیں ہے․․․․․
بچپن، لڑکپن میں․․․․․ لڑکپن، جوانی میں ․․․․․ اور جوانی، بڑھاپے میں اسی طرح تبدیل ہورہی ہے جس طرح ابتداء میں تبدیل ہوتی تھی․․․․․
کوئی چیز یہاں نئی نہیں ہے․․․․․
مثلاََ․․․․․ آج میں ایک ضعیف بزرگ ہوں․․․․․ اگر آپ میرے ماضی کو تلاش کریں گے تو کبھی میں ننھا منا معصوم سا بچہ تھا․․․․․ اپنی ماں کے سینے سے چمٹا رہتا تھا․․․․․ پھر کچھ بڑا ہوا اور بچپن کے دَور میں داخل ہوگیا․․․․․ بچپن سے لڑکپن میں آیا․․․․․ لڑکپن گزرا تو جوانی آئی․․․․․ جوانی گئی تو بڑھاپا آ گیا․․․․․ اب بڑھاپے کے بعد کی منزل درپیش ہے․․․․․ اس منزل میں مادّی وُجود ظاہری نگاہ سے غائب ہوجاتا ہے․․․․․اس دنیا کے ہر فرد کی یہی ایک کہانی ہے․․․․․ اللہ میاں نے کسی فرد کیلئے علیحدہ سے کوئی نئی کہانی نہیں بنائی․․․․․ لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ انسان اپنی کمزوری اور ناقص العقلی کی بناء پر یہاں ہر چیز کو نئی کہہ رہا ہے․․․․․
مثلاً آپ کے گھر میں ایک من گندم رکھا ہوا ہے․․․․․ اس میں آدھا پسوا لیا․․․․․ آپ روزانہ اسی پسی ہوئی گندم کے آٹے کی روٹی کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نئی روٹی کھا رہے ہیں․․․․․
اسی طرح پانی بھی ایک ہی ہے․․․․․ جسے ہر بندہ بشر پی رہا ہے․․․․․ چھ مہینے کا بچہ بھی وہی پانی پی رہا ہے اور ساٹھ سال کا بوڑھا بھی وہی پانی پی رہا ہے ․․․․․ لیکن کہتا ہے کہ پانی نیا ہے․․․․․
ایک بچی جوان ہوئی․․․․․ پھر اس کی شادی ہوگئی․․․․․ اللہ نے کرم کیا اور وہ امید سے ہوگئی․․․․․ وہ کہتی ہے کہ میں نئی ماں بن رہی ہوں․․․․․ حالانکہ اس سے پہلے اس کی ماں ان مراحل سے گزری تھی تو وہ پیدا ہوئی․․․․․ اس کی ماں سے پہلے اس کی نانی․․․․․ اس کی نانی سے پہلے نانی کی والدہ ․․․․․اور اگر آپ جوڑتے چلے جائیں گے تو یہ سلسلہ چلتے چلتے اماں حوّا سے جا ملے گا․․․․․
اگر آپ تفکر کریں ․․․․․ عقل و شعور کو استعمال کریں تو یہاں آپ کو کوئی چیز نئی نظر نہیں آئے گی․․․․․ ہر چیز پرانی ہے․․․․․ وہی پرانی کبھی نئی ہوجاتی ہے ․․․․․ اور کبھی پرانی ہوجاتی ہے․․․․․
مثلاً ایک بچہ دنیا میں پیدا ہوا․․․․ ابھی وہ بچہ ایک دن کا ہے․․․․ جب دوسرے دن میں داخل ہوگا تو وہ نیا ہوگیا․․․․ لیکن ایک دن کا پرانا بھی تو ہوگا․․․․․ جب تین دن کا ہوگا تو تیسرے دن کا نیا لیکن دو دن کا پرانا ہوگا․․․․․ جب پانچ دن کا ہوجائے گا تو کہیں گے کہ یہ بچہ چار دن کا پرانا ہے اور پانچویں دن میں نیا ہے․․․․․ اسی صورت میں جب وہ بچہ سالوں میں منتقل ہوجاتا ہے اور اس کی عمر بارہ سال ہوجاتی ہے تو وہ بارہویں سال میں نیا ہے لیکن گیارہ سال پرانا بھی تو ہے ․․․․ اٹھارہ سال کا جوان اٹھارویں سال میں نیا ہے․․․․ لیکن سترہ سال پرانا بھی ہے․․․․․ ایک بچہ جب دو سال کا ہوا تو کیا اس کے دو سال ختم ہوگئے․․․․․ فنا  ہوگئے ․․․․․ یا پھر اس کے ساتھ مَوجود ہیں؟․․․․․ دو سال کا بچہ ․․․․․ پہلے ایک دن کا ہوا․․․․ پھر دوسرے دن میں داخل ہوا․․․․․ چھ مہینے گزارے․․․․․ سال بھر کا ہوگیا․․․․ اسی طرح اس کے دو سال گزرگئے․․․․․ دو سال جو اس نے گزارے․․․․․ کہاں غائب ہوگئے․․․․․․ نظر کیوں نہیں آرہے․․․․․ یہ دو سال جس پردے میں چھپ گئے، اسی پردے کے پیچھے سے نیا دن نمودار ہُوا․․․․․․
    جو چیز پردے کے پیچھے چلی گئی ہے….. وہ پرانی ہو گئی․․․․․اور
    جو چیز پردے سے نکل کر سامنے آگئی․․․․․ وہ نئی ہے ․․․․․
دراصل یہ شعور کی کمزوری ہے․․․․․ یہ شعور کا ادھورا پن ہے․․․․․ جس نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا ہے․․․․․ اسی کی وجہ سے ہم دھوکے اور فریب میں مبتلا ہیں․․․․․
کہا جاتا ہے کہ ہر روز نیا سورج نکلتا ہے․․․․․ اگر سورج نیا نکلتا ہے تو پھر آپ کے گھر میں بھی کوئی تبدیلی آنی چاہئے․․․․․ کیا ایسا ہوتا ہے کہ اِدھر کا کمرہ اُدھر ہو گیا ہو؟․․․․․
آپ کے گھر میں ․․․․․․ شہر میں ․․․․․ ملک میں ․․․․․ اور پوری دنیا میں․․․․․ کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع ہوئی؟․․․․․
پھرآپ کا یہ کہنا کہ یہ نیا دن ہے!․․․․ کس حد تک درست ہے؟․․․․․
کیا آپ کے ماحول میں کوئی تبدیلی آئی ․․․․․ جب کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی تو پھر دن نیا کیسے ہوا؟․․․․․
لیکن کہا یہی جاتا ہے کہ نیا دن ہے ․․․․․ نیا سورج طلوع ہُوا ہے․․․․․ اگر اسے درست مان لیا جائے ․․․․․ پھر سورج کی روشنی میں بھی تو کوئی تبدیلی آنی چاہئے تھی․․․․․آپ کے گھر میں جو آٹا رکھا ہوا ہے․․․․․ جس کی روٹی آپ پکا کر کھاتے ہیں ․․․․․ کیا ہر نئے دن اس آٹے کا رنگ بھی تبدیل ہوجاتا ہے؟․․․․․ جب ہر دن نیا ہے تو کسی دن آٹے کا رنگ پیلا ہو، کبھی نیلا ہو، کبھی سفید ․․․․․ لیکن جب سے دنیا بنی ہے․․․․․ گندم بھی وہی ہے․․․․․ گندم کو پیسنے کے بعد حاصل ہونے والاآٹا بھی وہی ہے ․․․․․ آگ بھی وہی ہے ․․․․․آٹا گوندھنے کا طریقہ بھی وہی پرانا ہے․․․․․ اور روٹی پکانے کا عمل بھی اسی طرح سے چلا آرہا ہے ․․․․․
لیکن دنیا میں کہا جاتا ہے کہ ․․․․․ نیا دن نکلا ہے․․․․․
مبارک ہو! نیا سورج طلوع ہوا ہے․․․․․
کسی کا بچہ دس سال کا ہوگیا․․․․․ کہا جاتا ہے کہ ماشاء اللہ بچہ دس سال کا ہو گیا ․․․․․ بچے کی سالگرہ کی جاتی ہے․․․․․ کیک کاٹا جاتا ہے ․․․․․ عزیز و اقرباء کو جمع کیا جاتا ہے․․․․․․
جبکہ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ بچے کو اگر اللہ تعالیٰ نے ساٹھ سال کی عمر دے کر دنیا میں بھیجا تھا․․․․ جب بچہ دس سال کا ہوا تو اس کی عمر بڑھ گئی یا کہ گھٹ گئی؟․․․․․
ساٹھ سال میں سے دس سال نکل گئے ․․․․․ تو اس بیچارے کے پاس تو پچاس سال ہی باقی بچے․․․․․ اب کیا اس بات پر خوشی منائی جائے کہ میرے بچے کی عمر دس سال کم ہوگئی؟․․․․․
آپ کے بچے کو اللہ تعالیٰ نے ساٹھ سال کی عمر دے کر دنیا میں بھیجا․․․․․ اور اس کی عمر میں سے دس سال کم ہو گئے․․․․․ تو پھر آپ کس بات کی خوشی منا رہے ہیں․․․․․ عمر گھٹنے کی یا بڑھنے کی؟․․․․․
دراصل انسانی شعور کی یہ کمزوری ہے کہ وہ حقیقت کو مسخ کر کے، توڑ مروڑ کے اپنے حافظے کا حصہ بنا لیتا ہے ․․․․․ پھر یہی مسخ شدہ اور بگڑے ہوئے خدوخال اس کے تجربات کا، مشاہدات کا، عادات اور حرکات کا سانچہ بن جاتے ہیں․․․․․ اب جس قدر بھی معلومات اسے حاصل ہوتی ہے ہیں ان ہی سانچوں میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں․․․․․ یہ ہے انسان کا تمام کارنامہ اور اس کی مُعیّن کردہ اور فرض کردہ سمتیں، فارمولے اور اصول․․․․․ ان ہی خرافات کے بارے میں وہ بار بار یہ کہتا رہتا ہے کہ: یہ ہے  میرا تجربہ….. یہ ہے مشاہدہ….. یہ ہے علمِ طبیعی ․․․․․!!
میرے نقطۂ نظر سے تصوّف بھی مادّی علوم کی طرح ایک علم ہے۔ جس طرح میڈیکل سائنس ایک علم ہے، جس طرح Mathایک علم ہے، جس طرح انجینئرنگ ایک علم ہے…. وغیرہ وغیرہ۔ تو رُوحانیت یا تصوّف بھی ایک علم ہے۔ اب دیکھئے ہر علم کی الگ الگ افادیت ہوتی ہے مثلاً میڈیکل سائنس کی ایک الگ اپنی افادیت ہے، الگ فیلڈ ہے۔ سوِل انجینئرنگ کی الگ ایک افادیت ہے۔ اسی طرحMathکی الگ افادیت ہے۔ یعنی ہر علم کی اپنی ایک افادیت ہوتی ہے۔ اگر اس کی افادیت نہیں ہوگی تو ہر علم ختم ہوجائے گا۔ یہ بات میں قرآن ِ پاک کی اس آیت کی بنیاد پر کر رہا ہوں جس میں فرمایا گیا ہے کہ:
ہم نے ہر شے کو جوڑے دوھرے سے پیدا کیا۔ (سورۃ الرّعد – 3)
اسی طرح علم کے بھی دورخ ہیں۔ ایک مادّی علم اور ایک باطنی علم…. جس کو انبیاء کرام ؑ اور اولیاء کرام ؒ نے رُوح کا علم یا رُوحانیت یا تصوّف قرار دیا ہے۔
اسی طرح انسان کا جو شعور ہے اس کے بھی دو رخ ہیں:
    ایک ظاہر جو جسم کے ساتھ کام کرتا ہے…. اور
    ایک پوشیدہ رخ جو جسم کی اصل حقیقت یعنی رُوح کے اَندر کام کرتا ہے۔
ان دونوں رخوں سے متعارف کرانے کیلئے، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے واقف کرانے کیلئے، انبیاءِ کرامؑ  کا ایک لاکھ چوبیس ہزار نفوس پر مشتمل قافلہ دنیا میں وقوع پزیر ہوا۔ انبیاء کرامؑ کے بعد اولیاء اللہ (جو وارثینِ انبیاءؑ کہلائے)، انہوں نے اس بات کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ سب حقائق سے اللہ نے اپنے رسولؐ کے ذریعے قرآن میں تعلیمات تحریر کر کے ہمیں یہ تعلیمات حوالے کر دی ہیں جن تعلیمات کا محور یہ ہے کہ قرآن پاک میں تین علوم بیان کئے گئے ہیں․․․․․
    ایک تو شریعت کا علم ہے، یعنی انسان کا رہن سہن کیا ہو؟ ․․․․․ معیشت کس طرح کی ہو؟․․․․․ آپس کے حقوق کیا ہیں؟․․․․․ اللہ کے حقوق کیا ہیں؟․․․․․
    دوسرا علم تاریخ کا ہے․․․․․ جس میں بتایا گیا ہے کہ انبیاء علیہم السّلام تشریف لاتے رہے، انہوں نے اللہ کا پیغام اپنی اپنی قو م کے سامنے پیش کیا․․․․․ وہ پیغام یہی تھا کہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے․․․․․ اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور جو لوگ اللہ کو وحدہٗ لاشریک مانتے ہیں، اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اللہ کی پرستش کرتے ہیں، اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو معبود اور خالق نہیں مانتے، اللہ کے پاس ان کا اجر ہے ․․․․․ اور جو لوگ اللہ کی وحدانیت میں، اللہ کی ربوبیت میں، اللہ کی خالقیت میں، حاکمیت میں کسی کو شامل سمجھتے ہیں، ملاوٹ کرتے ہیں، یعنی شرک کرتے ہیں․․․․․ اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کے لئے عذاب کی بشارت ہے ․․․․․ انبیاء علیہم السّلام کی یہی تعلیم ہے اور قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبران علیہم السّلام کے حوالے سے یہ بیان کیا ہے کہ جب ان کی قوموں نے اللہ وحدہٗ لاشریک کو دل سے تسلیم نہیں کیا تو ان کا تباہ و برباد کردیا گیا․․․․․
    قرآن میں بیان کردہ تیسرا علم”مَعاد “ہے ․․․․ معاد کا علم ان سوالات کے جواب دیتا ہے کہ غیب کی دنیا کیا ہے؟․․․․․کیا انسان غیب کی دنیا سے واقف ہو سکتا ہے ؟․․․․․ اور کس حد تک غیب کی دنیا سے واقف ہونے کے بعد وہ غیب الغیب اللہ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ․․․․․
ہر انسان جو اس دنیا میں مَوجود ہے․․․․․ وہ چھوٹا ہو، بڑا ہو، ضعیف ہو، کمزور ہو، طاقتور ہو، وہ پیدا ہوتا ہے ․․․․․ اگر انسان کی پیدائش نہ ہو تو انسان کا وُجود ہی اس دنیا میں زیرِ بحث نہیں ہوگا․․․․․ پیدائش کے اس مرحلے پر جب ہم غور و فکر کرتے ہیں تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو وہ غیب کی دنیا سے آتا ہے ․․․․․ اور جب انسان مرتا ہے تو کہاں چلا جاتا ہے ؟․․․․․ ایک بچے کہ عمر چھ ماہ ہے․․․․ جب وہ ساتویں مہینے میں داخل ہوتا ہے، یعنی سات ماہ کا ہوتا ہے تو اس کے چھ ماہ کہاں چلے جاتے ہیں؟․․․․․ ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہوگا اور وہ یہ کہ سات مہینے غیب میں چلے گئے !․․․․ آپ جب کسی بیس سال کے نوجوان کا تذکرہ کرتے ہیں تو آپ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ ۲۰ سال پہلے پیدا ہوا تھا․․․․․ یا اس کی پیدائش کو بیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے ․․․․ یہ بیس سال ماضی میں دفن ہوگئے․․․․․ ماضی کا مطلب ہے غیب کی دنیا ․․․․․ غیب کی دنیا سے جب تک انسان اپنا رشتہ نہیں جوڑے گا، اس وقت تک نہ تو وہ اللہ سے اور اللہ کے رسول اللہ ﷺ سے متعارف ہوگا اور نہ ہی اسے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے باطنی پہلو سے آگاہی حاصل ہوسکے گی․․․․․
رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا لب لباب یہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والی ہستی اللہ سے واقفیت حاصل کرے ․․․․․ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ سے واقفیت کیسے حاصل ہوگی؟․․․․․ اللہ تو غیب ہے ․․․․․ اور غیب تو ہمیں گوشت پوست کی آنکھوں سے نظر ہی نہیں آتا․․․․․ اس تجزیہ سے ہمارے سامنے یہی بات آئے گی کہ مادّی جسم کو حرکت میں رکھنے والی ایجنسی “روح”ہے․․․․․ رُوح کے علاوہ یہاں نہ کوئی آدمی زندہ رہ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کام کر سکتا ہے ․․․․ درخت، چرند، پرند، حیوانات، نباتات، ارض و جبال غرض دنیا کی ہر شے میں رُوح ہے․․․․․ اسی طرح انسان میں بھی رُوح ہے ․․․․․ انسان واحد مخلوق ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے رُوح کا علم سکھایا ہے ․․․․
یہ وہی علم ہے جس کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں․․․․․ (سورۃ البقرۃ: 33 – 30)
”پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے ربّ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انہوں نے عرض کیا ․․․․․ کیا آپ زمین میں کسی ایسے فرد کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خون ریزیاں برپا کردے گا․․․․․ آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح و تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں۔اللہ نے فرمایا․․․․․ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ․․․․․ پھر اللہ پاک نے آدم کو علم الأسماء منتقل کیا اور اس کے بعد فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔ اور فرمایا ․․․․․ اگر تمہارا خیال صحیح ہے تو پھر تم علم الأسماء کے بارے میں بتاؤ۔ فرشتوں نے عرض کیا․․․․․ بے عیب اور نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے۔ ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں․․․․․ جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ․․․․․ حقیقت تو یہ ہے کہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں ․․․․․ پھر اللہ نے آدم سے کہا․․․․․ تم ان کے سامنے علم الأسماء بیان کرو․․․․․ جب آدم نے علم الأسماء کے بارے میں بیان کیا تو اللہ نے فرمایا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں․․․․․ جو تم سے مخفی ہیں، جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو․․․․․ اسے بھی میں جانتا ہوں․․․․․“
قرآن پاک کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسے علوم سکھا دئیے ہیں جو علوم کائنات میں کسی دوسری مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے نہیں سکھائے ․․․․․ اگر انسان ان علوم سے واقف نہیں ہے تو پھر اس کی حیثیت اشرف المخلوقات کی نہیں ہوگی بلکہ وہ دیگر تمام مخلوقات کی سطح پر ہوگا․․․․․ آپ دیکھئے کہ جو تقاضے انسان کے اَندر ابھرتے ہیں ․․․․․ وہی تقاضے حیوانات میں بھی پیدا ہوتے ہیں ․․․․․ چنانچہ علم الأسماء سیکھے بغیر انسان کی حیوانات پر کوئی فضیلت نہیں․․․․․ اس کیلئے ضروری ہے کہ انسان اپنے باطن کو تلاش کرے ․․․․․ باطن یعنی رُوح کو تلاش کرے ․․․․․ جب کوئی بندہ اپنی رُوح سے واقف ہوجاتا ہے تو وہ اللہ سے بھی واقف ہوجاتا ہے ․․․․․
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ․․․․․ میں تو تمہاری رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہوں ․․․․․ تم مجھے دور کیوں سمجھ رہے ہو․․․․․ جان سے زیادہ قریب ہونے کا کیا مطلب ہوگا․․․․․ آپ اپنی جان کو محسوس کرتے ہیں؟․․․․․ ہر آدمی کہے گا میں اپنی جان کو محسوس کرتا ہوں ․․․․․ جب ہی تو زندہ ہوں ․․․․․ جب ہی تو چل پھر رہا ہوں ․․․․․
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (سورۃ ق – 16)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں تمہاری رگ جاں سے زیادہ قریب ہوں ․․․․․
“اقرب” کا مطلب ہے کہ فاصلہ ہے ہی نہیں ․․․․․ یعنی اے میرے بندو! میں تم سے اتنا قریب ہوں کہ تم فاصلے کا تَعیّن ہی نہیں کر سکتے ․․․․․
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں ․․․․․
وَفِي أَنفُسِكُمْ  ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (سورۃ الذاریات – 21)
میں تمہارے اَندر ہوں تم مجھے دیکھتے کیوں نہیں ․․․․․
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں․․․․․ تم میری سماعت سے سنتے ہو․․․․․ میری بصارت سے دیکھتے ہو ․․․․ میرے فؤاد سے سوچتے ہو ․․․․․ میں نے تمہیں وہ علم دیا ہے جس علم کے ذریعے تم مجھ سے قریب ہوسکتے ہو․․․․․
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام سے فرماتے ہیں کہ ․․․․․
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ  ۖ  قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (سورۃ الإسراء – 85)
یہ لوگ تم سے رُوح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ اے پیغمبر (ﷺ) آپ فرما دیجئے کہ رُوح میرے ربّ کے امر سے متعلق ہے اور رُوح کے بارے میں جتنا علم دیا گیا ہے وہ قلیل ہے۔
یعنی رُوح کا علم تو دیا گیا ہے مگر یہ قلیل ہے….. اس نقطہ کو ہم یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ….
اللہ تعالیٰ کے پاس جتنا علم ہے، رُوح کا علم اس کا قلیل حصہ ہے ․․․․
اب انہی آیات پر ہم گفتگو کریں گے․․․․․
جب سے یہ دنیا بنی ہے اور آدم علیہ السّلام اس دنیا میں بھیجے گئے، اس وقت سے دنیا میں تلاش اور جستجو کی ایک دَوڑ لگی ہوئی ہے کہ علم کیا ہے ؟․․․․․آدم علیہ السّلام یعنی آدم کا ہر بیٹا اس دنیا میں کیوں آیا؟․․․․․ حقیقت یہ ہے کہ اپنی مرضی سے یہاں کوئی نہیں آیا․․․․․ پھر یہ کہ اس دنیا میں جب دل لگ جاتا ہے تو وہ نہ چاہنے کے باوجود اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ یہاں دو چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں کہ:
    اوّل، اپنی مرضی کے بغیر پیدا ہونا…. اور
    دوم، اپنی مرضی کے بغیر مرنا․․․․․
علم کی جو بھی صلاحیت اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے وہ پیغمبروں کے ذریعے نوعِ انسانی تک پہنچی ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں تشریف لائے۔ ان کی تعلیمات کو اگر بہت زیادہ اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے تو اس کے دورخ متعیّن ہوتے ہیں۔
    ایک یہ کہ انبیاء علیہم السّلام نے دوسری مخلوقات سے انسان کو ممتاز کرنے کیلئے اچھائی اور برائی کا تصور دیا․․․․․ اور
    یہ اچھائی اور برائی اس لئے بتائی گئی کہ زمین کے اوپر ایک ایسا معاشرہ قائم ہو جس معاشرے میں چھین جھپٹ نہ ہو، فساد نہ ہو، حق تلفی نہ ہو․․․․ امن کے ساتھ، محبت کے ساتھ، بھائی چارے کے ساتھ، اخوت و ہمدردی کے ساتھ، خدمت کے جذبے کے ساتھ انسان اس دنیا میں رہے اور خوش ہو کر رہے…. اب حقیقی خوشی کو کیسے تلاش کیا جائے ؟․․․․․ تو اس کیلئے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا۔
جب اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو علم الأسماء سکھائے اور فرشتوں نے آدم کی حاکمیت کو تسلیم کیا تو پھر آدم کی سکونت کا مسئلہ زیر بحث آیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جنّت میں رہو، مگر ایک شرط یہ بھی لگادی کہ خوش ہو کر رہنا ہے اور جہاں سے جی چاہے Time and Space سے آزاد ہو کر کھانا پینا۔ ایک تو یہ فرمایا کہ خوش ہو کر کھانا پینا اور دوسرے یہ فرمایا کہ اس درخت کے قریب مت جانا اور اگر تم اس درخت کے قریب گئے تو تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا۔ آدم علیہ السّلام سے سہو ہُوا اور اس کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق آدم کو زمین پر بھیج دیا گیا۔ جب آدم علیہ السّلام زمین پر آئے تو آدم کو زمین کے عناصر سے بنا ہُوا جسم ملا اور اس مٹّی کے پتلے یا عناصر سے تیار جسم (جو دراصل ایک خول ہے)، اِس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رُوح ڈال دی اور یوں گوشت پوست کا جسم چلنے پھرنے لگا۔
یہاں سے آدم کی شخصیت کے دو رخ بن گئے۔
    ایک مادّی عناصر سے بنا جسمانی رخ جس کی اپنی کوئی ذاتی حیثیت اور حرکات و سکنات اور جذبات و احساسات تسلیم نہیں کئے گئے…. اور
    دوسرا وہ رخ جس نے مادّی عناصر سے مرکب جسم کو سنبھالا ہوا ہے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ ایک آدمی زندہ لیٹا ہوا ہے اور ایک مُردہ لیٹا ہوا ہے۔ زندہ آدمی کے سوئی چبھوئی جائے وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ جائے گا جبکہ مردے کو مارا پیٹا جائے حد یہ کہ پوسٹ مارٹم کیا جائے…. وہ اف تک نہیں کرے گا۔ زندگی کے تقاضوں میں سب سے اہم کھانا پینا ہے۔ ایک زندہ آدمی کو کھانا دیا جائے تو آرام سے کھالے گا مگر مُردہ آدمی میں کھانے پینا کا تقاضہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ یعنی کھانا پینا تب ہو گا جب جسم میں رُوح مَوجود ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کھانا جسم نے نہیں کھایا بلکہ رُوح نے جسم کو میڈیم بنا کر کھانا کھایا۔ اسی طرح نماز کی مثال لے لیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو نماز قائم کرنے کی سعادت نصیب فرمائے ․․․․․ تو کیا یہ نماز جسم نے پڑھی ․․․․․؟ یہاں بھی آپ یہی کہیں گے کہ فزیکل باڈی کو میڈیم بنا کر رُوح نے نماز پڑھی․․․․․ علیٰ ھٰذا القیاس…. اسی طرح آپ اس میں جتنی چھان پھٹک کریں گے آپ کو یہی جواب ملے گا کہ مادّی جسم صرف میڈیم ہے اور ہر کام رُوح کر رہی ہے۔
میرے مرشدِ کریم حضور قلندر بابا اولیاء ؒ نے ایک کتاب “لوح و قلم “تحریر کی۔ اس کے پہلے صفحہ پر انہوں نے تحریر فرمادیا ہے کہ:
“یہ کتاب میں سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کے حکم سے لکھ رہا ہوں اور مجھے یہ حکم بطریق اُوَیسیہ حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام سے ملا ہے ”
اس کتاب میں آپ ؒ نے ایک جگہ فرمایا کہ لباس ہر انسان کی ضرورت ہے۔ جب انسان نے لباس پہنا ہوتا ہے، مثلاً کُرتا شلوار، تو ہاتھ ہلانے پر آستین ہلتی ہے اور چلنے پر شلوار حرکت کرتی ہے، مگر جب اس لباس کو اتار د یا جائے تو جسم کے حرکت کرنے کے باوجود لباس میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی۔ بالکل یہی صورت رُوح کے ساتھ ہے کہ وہ مادّی دنیا کے عناصر سے ایک لباس یعنی ہمارا جسم بنا کر خود اس میں چھپ گئی۔ جب تک رُوح جسم میں ہے جسم حرکت کرے گا اور رُوح کے نکل جانے کے بعد جسم میں کوئی حرکت نہیں ہو گی۔ یعنی لباس کی طرح اس جسم کی بھی کوئی ذاتی حرکت نہیں ہے۔
اس بات کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ ….. (سورۃ الرّوم – 19)
یعنی ہم زندگی کو موت میں داخل کر دیتے ہیں اور موت کو زندگی میں داخل کر دیتے ہیں ․․․․․
تو یہ جسم و جان کا جو رشتہ ہے وہ یہ ہے کہ رُوح نے اپنے لئے ایک لباس بنایا ہے اور ورح اس جسم کو چلاتی ہے، پھراتی ہے، حرکت میں رکھتی ہے۔ انسانی شعور میں خیالات کو پروسس کرنے والی ایجنسی جو دماغ میں قائم ہے، اس کی بنیاد پیغمبروں کی Briefing پر ہے، یعنی اچھائی اور برائی کا ایک تصور ہمارے اَندر قائم ہے جسے ہم ضمیر کا نام دیتے ہیں۔ ضمیر ایک روشنی ہے، رُوح کا ایسا پارٹ ہے جو ہر انسان کو برائی سے منع کرتا ہے اور اچھائی کی ترغیب دیتا ہے۔ لیکن جب رُوح اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے تو ضمیر بھی وہاں نہیں رہتا۔
جتنے بھی رُوحانی سلسلے ہیں ان سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ لوگوں کو ایسے راستے پر چلایا جائے جس پر چل کر وہ حضور پاکﷺ اور انبیاء کرامؑ کی طرزِ فکر حاصل کریں۔ آدم علیہ السّلام سے لے کر حضور پاک ﷺ تک تمام انبیائے کرام علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی طرزِ فکر پر غور کیا جائے تو وہ ایک ہی ہے۔ وہ یہ کہ ساری مخلوق اللہ نے اس لئے پیدا کی ہے کہ اللہ کی عبادت کی جائے اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے اور پیغمبروں کی تعلیمات یعنی زندگی گزارنے کے اصول، طریقے اور ضابطے جنہیں شریعت کہا جاتا ہے، ان پر عمل کیا جائے۔
 جب بھی کوئی پروگرام دوسرے لوگوں کو بتایا جاتا ہے یا کسی ماحول سے انہیں آشنا کیا جاتا ہے چاہے وہ دنیاوی عمل ہو یا دینی․․․․․تربیت ضروری ہوتی ہے۔ سلسلۂِ عظیمیہؔ نے بھی ایک تربیتی پروگرام مرتّب کیا ہے جس کے ذریعے لوگوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی اللہ نے توفیق عطا فرمائی۔ سلسلۂِ عظیمیہؔ کی تعلیم یہ ہے کہ:
    حرکات کا تعلق مادّی جسم کے ساتھ نہیں ہے بلکہ جب تک رُوح ہے انسان رحمانی کام بھی کرتا ہے اور شیطانی بھی
    جب تک بندہ اپنی رُوح سے واقف نہیں ہوگا وہ پیغمبر آخر الزّمان، سیدنا حضور علیہ الصّلوٰۃ السّلام اور انبیاء علیہم السّلام کی فکر سے واقف نہیں ہوسکتا۔
    جب کوئی بندہ انبیاء اور حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی فکر سے آشنا ہوجاتا ہے تو وہ یہ جان لیتا ہے کہ دنیا ایک سرائے سے زیادہ کچھ نہیں․․․․
    انسان یہاں دو طرح کے کام کرتا ہے برائی یا اچھائی…. برائی کی صورت میں یہاں بھی نا خوش اور آگے بھی نا خوش ․․․․․
    نیکی، بھلائی، سعادت مندی، خدمت ِ خلق کا جذبہ، والدین کے حقوق پورے کرنے کا جذبہ، اللہ اور اللہ کے رسول اللہ ﷺ کے احکامات کا اتباع، دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں کامیابی کا ضامن ہوتا ہے
    دنیا کے سرائے ہونے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، اس لئے آخرت کی تیاری ضروری ہے۔
    آخرت کی تیاری انبیاءِ کرامؑ کی تعلیمات پر عمل پَیرا ہوتے ہوئے اپنی رُوح سے واقف ہونے سے ہوجائے گی
آپ نے اس پروگرام میں شرکت کی…. آپ کا بہت شکریہ ․․․․․ میری دعا ہے کہ اساتذہ نے جو کچھ ہمیں بتایا ہے اللہ تعالیٰ اس پر ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ کو پروگرام کی کامیابی کی بہت بہت مبارکباد ہو۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔


السّلام علیکم!

Topics


خطبات لاہور

خواجہ شمس الدین عظیمی

اِنتساب

اُس جبلِ نور کے نام…..

جہاں سےمُتجلّیٰ ہونے والے نورِ ہدایت نے نوعِ انسانی کی ہرمعاملے میں راہنمائی فرما کرقلوب کی بنجر زمین کو معرفتِ اِلٰہیہ سےحیات عاو کرنے کا نظام دیا