Topics
دنیا میں رائج علوم کو ہم تین دائروں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
۱۔ طبعی علوم
۲۔ نفسیاتی علوم
۳۔ مابعد النفسیاتی علوم
پہلے دو علوم کے بارے میں تفصیلات بیان کرنا ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ ہم مابعد النفسیات کے علوم کی تشریح بیان کرتے ہیں۔
آدمی تین دائروں سے مرکب ہے۔ شعور، لاشعور، ورائے لاشعور۔ یہ تینوں دائرے دراصل تین علوم ہیں۔
جس وقت ہم مظاہراتی خدوخال میں داخل ہوتے ہیں یعنی ہمیں کسی چیز کا احساس ہوتا ہے ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں یا ہمارے اندرخواہشات اور تقاضے پیدا ہوتے ہیں تو ہم تین دائروں میں سفر کرتے ہیں۔
پہلے ہمیں کسی چیز کی اطلاع ملتی ہے پھر اس اطلاع میں تصوراتی نقش و نگار بنتے ہیں اور پھر یہ تصوراتی نقش و نگار، مظہر کا روپ دھار کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔
اطلاعات کے علم کو ہم ایک دوسرے طریقے سے بیان کرتے ہیں۔
کائنات میں پھیلے ہوئے مظاہر میں اگر تفکر کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اطلاعات تمام موجودات میں قدر مشترک رکھتی ہیں۔
اس کی مثال یہ ہے کہ پانی کو آدمی، حیوانات، نباتات و جمادات پانی سمجھتے ہیں اور پانی سے اسی طرح استفادہ کرتے ہیں جس طرح آدمی کرتا ہے۔ جس طرح پانی کو پانی سمجھا جاتا ہے اسی طرح آگ ہر مخلوق کے لئے آگ ہے۔ آدمی اگر آگ سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو بکری، شیر، کبوتر اور حشرات الارض بھی آگ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک آدمی مٹھاس پسند کرتا ہے۔ دوسرا طبعاً میٹھی چیزوں کی طرف راغب نہیں ہوتا لیکن ہر دو اشخاص میٹھے کو میٹھا اور نمک کو نمک کہتے ہیں۔
علم مابعد النفسیات یا مصدر اطلاعات کا علم ایک ایسا علمی دائرہ ہے جس کے اندر بے رنگی پائی جاتی ہے۔ جب اس بے رنگی میں لاشعور رنگ بھر دیتا ہے تو اس کی حیثیت نفسیات کی ہو جاتی ہے اور جب یہ عمل فعال اور متحرک ہو جاتا ہے تو اس کی حیثیت شعوری بن جاتی ہے۔
شعور اس ایجنسی کا نام ہے جو معانی کو مظاہراتی لباس بخشتا ہے۔ لاشعور اس رخ کا نام ہے جو کسی اطلاع کو معنی پہناتا ہے اور ورائے لاشعور ایک ایسا دائرہ ہے جس میں علم کی حیثیت محض علم کی ہوتی ہے یعنی وہ علم جو بحیثیت علم کے صرف علم ہوتا ہے۔ اس میں معانی اور خدوخال سمتیں یا اُبعاد (Dimension) نہیں ہوتے۔ ورائے لاشعور سے گزر کر جب علم شعور میں داخل ہوتا ہے تو لاشعور اپنی دلچسپی اور ماحول سے ملی ہوئی طرز فکر کے مطابق اسے معنی پہنا دیتا ہے۔
مثال
بھوک ایک اطلاع ہے جب تک یہ ورائے لاشعور میں موجود ہے محض بھوک ہے لیکن لاشعور میں داخل ہونے کے بعد اس تقاضے کی تکمیل الگ الگ معانی پہنا کر کی جاتی ہے۔
بھوک کی اطلاع شیر اور بکری دونوں میں موجود ہے لیکن بکری اس اطلاع کی تکمیل میں پتے کھاتی ہے اور شیر بھوک کی اطلاع پوری کرنے کے لئے گوشت کھاتا ہے۔
بھوک کا معاملہ دونوں میں قدر مشترک ہے۔ البتہ بھوک کی اطلاع کو الگ الگ معانی پہنانا دونوں کا جداگانہ وصف ہے۔
نوع انسانی میں شروع ہی سے تحقیق و تلاش کا جذبہ کام کر رہا ہے۔ آدم زاد نے ابتدائے آفرینش سے اپنے اردگرد موجود اشیاء کو سمجھنے اور اس پر تصرف حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ہمیشہ طبع آزمائی کرتا رہا کہ
یہ پوری کائنات کیسے بنی؟
کیوں بنی؟
میں خود کیسے وجود میں آیا اور میں فنا کیوں ہو جاتا ہوں؟
اس کوشش میں انسان نے بہت سے مدارج طے کئے۔
تحقیق تلاش
اول اول اس نے طبیعیات کے میدان میں ہاتھ پیر مارے اور اس کی توجہ مادے کو سمجھنے میں مرکوز رہی۔ اس نے اپنی ضروریات اور خواہشات کے مطابق دھات، عمارت سازی، فلکیات، طب اور اسی طرح کے اور بہت سے علوم مدون کئے اور ان علوم کو وسعت دیتا رہا۔ لیکن پھر بھی کائنات کی حقیقت اور ماہیت کو سمجھنے سے قاصر رہا۔ واضح رہے کہ یہ انسان کی عمومی حالت کا ذکر ہے کیوں کہ ہر زمانے میں نوع انسانی میں بہت سے ایسے حضرات موجود رہے جو پابندیوں سے ماوراء تھے اور ان کی صلاحیتیں لوگوں کے لئے مشعل راہ بنی رہیں۔
دسویں صدی ہجری /۱۶ویں صدی عیسوی سے ترقی کی رفتار نے کروٹ لی اور اس میں تیزی پیدا ہوئی اور پھر یہ رفتار بڑھتی رہی۔ انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی جو اسلامی کیلنڈر کے حساب سے تیرہویں اور چودہویں صدی ہجری ہے علم طبیعیات میں انقلاب برپا ہوا اور انسان کے سامنے نئی نئی راہیں اور نئے نئے علوم آتے رہے۔
انسان نے لہروں کو دریافت کر کے ریڈیو اور ٹی وی ایجاد کر لیا۔ بجلی دریافت کر کے برقیات کی بنیاد رکھی۔
فاصلے سمٹ گئے اور وقت کی اس حد تک نفی کر دی گئی کہ برسوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونے لگا۔
ان نت نئی ترقی اور سوچ بچار نے انسان کے ذہن کو تیزی عطا کی اور اس نے یہ معلوم کر لیا کہ انسان کے شعور اور مادی حرکات کے پیچھے بھی لطیف حرکات موجود ہیں جن کے ذریعے مادہ حرکت کر رہا ہے۔
آواز کی دریافت ان کے طول موج کی پیمائش اور لہروں کی دریافت نے ان خیالات کو تقویت بخشی ہے۔
انسان نے مزید جستجو کر کے نفسیات کی بنیاد رکھی اور اس کو باقاعدہ ایک علم کی شکل دے دی۔
خیالات، تصورات اور احساسات جیسے غیر مرئی وجود کو اہم اور اثر پذیر سمجھ کر اس پر تحقیق کے دروازے کھول دیئے پھر انسان نے ایک قدم اور بڑھایا اس نے اپنی تحقیقات کے ذریعے طبیعیات اور نفسیات کے اس پار بھی ایک اور دنیا کا سراغ لگایا اور اس کو مابعد الطبیعیات میٹا فزکس یا پیراسائیکالوجی کا نام دیا۔
Carlen Photography
سائنسدان فوٹو گرافی کی اعلیٰ ترین تکنیک کرلین فوٹو گرافی (Carlen Photography) استعمال کر کے رنگوں کی دنیا میں داخل ہو گئے۔ انہوں نے جسم مثالی یا ہالۂ نور کے وجود سے بھی واقفیت حاصل کی جو ہر مادی شئے پر محیط ہے اور اسے (AURA) کا نام دیا۔ امریکہ، یورپ اور بطور خاص روس میں کی جانے والی دریافت نے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچا دی ہے کہ لہریں مادی کو کنٹرول کرتی ہیں اور اسی کی بنیاد پر مادہ کا قیام ہے۔ اب یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ انسان کے اندر صلاحیتوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے جس میں ٹیلی پیتھی، مستقبل بینی جیسی صلاحیتیں سامنے آتی رہتی ہیں اور ان پر تحقیقی کام جاری ہے۔ آج انسان اس نقطہ پر ہے جہاں وہ مادہ کو محسوس کرنے کے بعد لہروں پر دسترس حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔
عظیمی صاحب کی ذات سے لاکھوں انسان فیض حاصل کر رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ تاقیامت کرتے رہیں گے۔ آپ نے انسانیت کی فلاح کے لئے رات دن محنت کی ہے اور نبی کریمﷺ کے مشن کو پھیلانے کے لئے جدوجہد کی ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے انسان کو نہ صرف خود آگہی حاصل ہو گی بلکہ توحید و رسالت، تسخیر کائنات اور کہکشانی نظام کے ایسے ایسے عقدے کھلیں گے، جو ابھی تک مخفی تھے۔
ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے سچے مرید حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی جس سادگی اور آسان الفاظ میں اسرار و رموز پر سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ بلاشبہ ان کے اوپر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور جس طرح افراد کی توجہ فلاح و بہبود کی طرف مبذول ہو جاتی ہے یہ بھی فضل ایزدی ہے۔